حماد غزنوی

آئین، ان کو دِکھایا تو برا مان گئے

علمِ نجوم سے دست شناسی تک، بہت سے علوم مستقبل میں جھانکنے کے دعویدار ہیں، اور ان علوم کا کاروبار خوب چلتا ہے کیوں کہ انسان فطرتاً آنے والے کل کے بارے متجسس ہے۔ویسے ان علوم کے حوالے سے ہماری رائے شہزاد احمد سے ملتی جلتی ہے جنہوں نے فرمایا تھا ’’سب تری طرح لگاتے ہیں قیافے شہزاد…اب کسی کو نہیں معلوم کہ کیا ہونا ہے‘‘۔
ان نجومیوں، پنڈتوں اور جوتشیوں کے علاوہ ایک اور گروہ بھی پیش بینی کا کاروبار کرتا ہے جو سیاسی تجزیہ کار کہلاتے ہیں، ان کی اکثریت تو ہمارے جیسوں پر مشتمل ہے، جو اپنی خواہشات کے آزر کدے میں بند آنکھوں سے اوستا کے بھجن گاتے ہیں اور انہیں کامل سنجیدگی سے تجزیے کا نام دیتے ہیں، مسلسل غلط ثابت ہوں تو بھی دل بُرا نہیں کرتے، اوراسی خشوع و خضوع سے اپنا کاروبارِ شر و شرر جاری رکھتے ہیں۔لیکن ان پیشہ ور سیاسی تجزیہ کاروں سے ہٹ کر ایک مختصر سا گروہ ایسے افراد کا بھی پایا جاتا ہے جنہیں ’مدبر‘ قرار دیا جا سکتا ہے، ان کے پاس نہ تو موکل ہوتے ہیں نہ انہیں رویائے صالحہ دکھائے جاتے ہیں، وہ صرف اور صرف اپنے تدبر سے مستقبل میں جھانک لیتے ہیں۔مولانا ابوالکلام آزادؒ یاد آ رہے ہیں۔
مولانا نے ’انڈیا ونز فریڈم‘ میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کچھ تجزیہ فرمایا ہے، جس کی بنیاد نوائے سروش نہیں، بلکہ فقط دیدہ ِ بینا ہے۔ آج حیرت ہوتی ہے ان کی پیش بینی پر، ریاستِ پاکستان کے خدوخال انہوں نے دہائیوں پہلے ہو بہو دیکھ لیے تھے۔ مشرقی پاکستان بارے فرماتے ہیں دنیا میںاس نوع کے جغرافیائی بُعد والی کسی ریاست کی کوئی مثال نہیں ہے، اسلامی دنیا بھی (پہلی صدی کے بعد) اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتی، زمین کے ان دو ٹکڑوں میں تمدن، تہذیب، تاریخ، معاشیات، کچھ بھی مشترک نہیں، لہٰذا یہ معاملہ چلتا نظر نہیں آتا۔ مغربی پاکستان بارے کہتے ہیں کہ یہاں تینوں چھوٹے صوبے پنجابی تسلط کے خلاف ہم زبان ہو جائیں گے، الیکشن کے حوالے سے ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کا تعلق یو پی، بہار اور بمبئی سے ہے جن کا مغربی پاکستان میں کوئی مضبوط حلقہ انتخاب نہیں ہے لہٰذا یہ گروہ الیکشن سے کتراتا رہے گا، 1956 کے آئین بارے کہتے ہیں کہ دس سال بعد آئین بن تو گیا ہے مگر اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے، ایک خوف کی نفسیات کے تحت دونوں ملکوں کے عسکری بجٹ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور نتیجتاً غربت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اور پاکستان اپنے کم تر معاشی وسائل کے سبب اپنا زیادہ نقصان کرے گا، اپنے مخصوص حالات کی بنا پرپاکستان مغربی ممالک کا طفیلی بن کر رہ جائے گا، اور اندیشہ ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کی ذاتی اغراض و منفعت قومی مفاد پر غالب آ جائے گی (سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے بھی پچھلے پچھتر سال سرتوڑ کوشش کی ہے کہ مولانا کی کوئی بات غلط نہ ہونے پائے)۔
جب پتھر ڈھلان پر گر رہاہوتا ہے تو اس کی رفتار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ہمیں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ احوال کاسامناہے،ہمارے پاس ایک آئین تو ہے، لیکن ہم نے اسے بس ایک درشنی دستاویزبنا دیا ہے۔ہم فوجی مارشل لاز سے نکلے تو عدالتی مارشل لا کا سامنا تھا، فوجی ڈکٹیٹر آئین کو ردی کی ٹوکری کے سپرد کرتے تھے، منصفوں نے اس مقدس دستاویز کو ’ٹرکوں‘ تلے کچل دیا۔آج ایک الیکشن کے معاملے کو ہی دیکھ لیجیے، آئین کے مطابق اسمبلی ٹوٹنے کے 90 دن کے اندر یعنی آٹھ نومبر تک الیکشن ہونا تھے، لیکن ابھی تک انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی نہیں ہو پایا، تاریخ کے اعلان میں کیا رکاوٹ ہے؟ کیا اس ملک کے شہری کھلونا ہیں جن کے اعصاب سے مسلسل کھیلا جا رہا ہے۔ آپ یہ دیکھیے کہ کس دیدہ دلیری سے لوگ اغواکر لیے جاتے ہیں، اور جب مہینوں بعد لوٹ کر آتے ہیں تو کچھ بولتے ہی نہیں، کچھ بتاتے ہی نہیں، سہمے سہمے، پتھرائی ہوئی آنکھوں والے، سایوں جیسے لوگ جو کیمرے کے سامنے جبراً مسکرانے کی اداکاری کرتے نظر آتے ہیں ۔یہ اہلِ پنجاب کے لیے بلوچی بھائیوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کا وقت ہے، کہ وہ تو یہ جبر دہائیوں سے برداشت کر رہے ہیں، اور وہاں تو اکثر سہمے ہوئے سائے بھی لوٹ کر نہیں آتے (آپ نے مسنگ پرسنز کی اصطلاح تو سن رکھی ہو گی)۔گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک بلوچی ہم جماعت بحث کے دوران اکثر جملہ بولا کرتا تھا کہ ’’آپ کو ہماری حالت کا پتا ہی نہیں، آپ سمجھ ہی نہیں سکتے، آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے۔‘‘ بلا شبہ وہ ٹھیک کہا کرتا تھا۔یہ ہے اس سرزمین پر آئین کی کسمپُرسی کا عالم۔ادارے اپنے آئینی دائروں سے نکلنے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں، اور یہ دراز دستیاں کھلم کھلا کی جاتی ہیں اور اب تو جیسے شہری بھی ان سے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ڈھلان کا سفر تیز تر ہوتا جاتا ہے۔ریاست کے وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ مکمل ہو چکا ہے مگرسالانہ تقریباً 18 بلین ڈالر کی مراعات لینے والی اشرافیہ کی پیش قدمی ہنوز جاری ہے، عوام کا پلیتھن نکل گیا ہے مگر اشرافیہ ان کی بدحالی سے یکسر بے نیاز شاہ راہِ حرص وہوس پرسرپٹ دوڑ رہی ہے۔
خواہش تھی کہ کالم کا اختتام کسی مثبت نقطے پر کیا جائے مگر اب کیا کیا جائے کہ کوئی روشن بات سوجھ ہی نہیں رہی۔ بہرحال، آپ میں سے کسی کو دِلی جانے کا اتفاق ہو تو جامع مسجد کے قریب مولانا ابوالکلام آزاد کی قبر پر ضرور جائیے گا، فاتحہ پڑھیے گا اور ان سے کہیے گا کہ’ مولانا، آپ سچے تھے۔‘ ـ

اپنا تبصرہ بھیجیں