آغا وقار ھاشمی

لھو کا رنگ لال تھا

میرے والد اکثر بتایا کرتے ھیں کہ تقسیم پاکستان سے پہلے بلکہ تقسیم ھندوستان سے بھی پہلے تقریباً 1920 کی دھائی میں میرے والد کے دادا اور دادی ایک ایسے گاوُں میں رہتے تھے جہاں ھندوں اور سکھوں کی اکثریت تھی، وہاں مسلمانوں کے گھر گن کر چار یاں پانچ سے ذیادہ نہ تھے۔
اس دور میں دیہاتوں میں اکثر قصہ فروش آیا کرتے تھے ان کے پاس مختلف لوک کہانیوں اور قصوں کے چھوٹے چھوٹے کتابچے ھوتے جو بیس سے پچیس صفحات پر مشتمل ہوتے۔جنہیں وہ گلیوں میں آواز لگا کر بیچا کرتے۔

“مرزا صاحباں دا قصہ ۔ہیر وارث شاہ ۔سسی پنوں دا قصہ ۔ قصہ بابا گرو نانک۔ رام تے سیتا پڑھو۔۔۔۔”

جیسے ہی ماہ محرم کا آغاز ہوتا تو اس کی مناسبت سے ان چلتے پھرتے کتاب خانوں میں کچھ اور کتابچوں کا اضافہ ھوتا۔

“جوان علی اکبرؑ دا قصہ ۔ قصہ قاسمؑ شھیدی ۔ شش ماہے علی اصغرؑ دا قصہ ۔ غازٰی علمدارؑ ۔ حسینؑ مظلوم ۔۔۔۔۔۔۔”

میری پردادی تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا جانتی تھیں۔مگر دین کے متعلق ان کی معلومات بہت محدود تھیں۔لیکن جیسے ہی ماہ محرم کا آغاز ہوتا وہ اسی انتظار میں ھوتیں کہ کب کوئُی قصہ فروش آیے اور وہ اس سے قصہ خریدیں ۔ اپنی استطاعت کے مطابق ایک یا دو قصے خریدتیں ۔ جن میں سے ایک قاسمؑ شھیدی(قاسم بن حسنؑ) کا قصہ ضرور ھوتا ۔دوسرا کبھی شش ماہے کا تو کبھی علمدارؑ کا ۔یاں کبھی حسینؑ مظلوم کا ۔

دیہاتوں میں خواتین علی الصبح ہی اٹھ جایا کرتی تھیں ۔ اور گھر کے کاموں میں لگ جایا کرتی تھیں ۔ دوپہر سے پہلے کام ختم ہو جایا کرتا تو اکثر محلے کی خواتین کہیں نہ کہیں اکٹھی ہو جایا کرتیں ۔ اور دوپہر کے کھانے سے پہلے تک کا وقت اکٹھے بیتاتیں ۔ موضوعات کی کبھی کمی نہ ہوتی ۔ گفتگو کا تسلسل کبھی ٹوٹنے نہ پاتا ۔ عموماً میری پردادی کے گھر کے صحن میں ہی یہ محفل جمتی تھی ۔ لیکن محرم میں صورتحال مختلف ہوتی ۔ موضوع ایک ہوتا اور خواتین خاموش ۔ میری پردادی قصہ پڑھتیں سبھی خاموشی سے سنتیں ۔ اور کچھ تو فرط جزبات میں گریہ بھی کرتیں ۔ دن ان کے پاس دس اور قصے صرف دو ہوتے ۔ وہی دو قصے روزانہ بڑے انہماک اور اہتمام سے سنے جاتے ۔ خصوصاً قاسمؑ شھیدی کا قصہ ۔
اس مجلس کی ایک منفرد بات یہ ہوتی تھی کہ قصہ پڑھنے والی میری پردادی اگر سنی مسلمان ھے تو سننے والوں میں کچھ سنی مسلمان بھی ہیں اور دو شیعہ خواتین بھی۔ اور اکثریت ہندو اور سکھ خواتین کی ھوتی۔

ساتویں محرم کو سبھی خواتین ملکر سبیل امام حسینؑ کا بندودست بھی کرتیں۔جو عموماً ان خواتین اور ان کے گھروں تک ہی محدود رہتی یا کوئی گدا گیر اس سے سیراب ہوتا ۔ مگر کربلا والوں کی پیاس کو یاد کیا جاتا۔

یہ سب کچھ اپنے والد سے سننے کے بعد میں اکثر اس سوچ میں گم جاتا ہوں کہ اب ایسی بھائی چارے کی فضا کیوں نہی ھے ؟
اب ایسا برداشت، رواداری امن کا ماحول کیونکر قائم نہیں ہو پاتا؟
تب اُس دور میں معاشرہ اس حد تک فرقہ واریت اور مذہبی اختلافات کی آگ میں کیوں نہیں سلگھ رہا تھا؟

۔شاید تب اختلافی باتیں کتابوں تک محدود رہتی تھیں اور وہ کتابیں ان لوگوں تک جو کہ ان باتوں کو ہضم کر سکیں۔

۔شاید اس دور میں لوگ ایک دوسرے کی دل آزاری کو گناہ سمجھتے تھے۔

۔شاید تب لوگوں میں ایک دوسرے کا مذہب جاننے کا تجسس تو ہوتا تھا مگر اپنا مذہب دوسرے پر تھوپنے کا جنون نہی۔

۔شاید تب مذاہب امن کا درس دیتے تھے اور اسلام کا مطلب “امن” ہی لیا جاتا تھا۔

شاید تب انسانی جان کی قیمت اور قدرو منزلت زیادہ تھی۔

سنا ھے تب انسانوں کی رگوں میں دوڑنے والے لھو کا رنگ لال تھا۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں