talha shafiq

ساغر صدیقی کے گمنام پہلو

ساغر اردو کے نامور شاعر تو ہیں، مگر عجب ہے کہ دیگر شعراء کے برعکس ان پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ ساغر کسی خاص ادبی گروہ سے وابستہ نہ تھے۔ خیر ساغر کے ابتدائی حالات کے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہے۔ البتہ ساغر صاحب کے ایک دوست سید م سلیم یزدانی نے ساغر سے خاصی تگ و دو کے بعد ان کی ابتدائی زندگی کے متعلق کچھ معلومات حاصل کی تھی۔ محمد عبداللہ قریشی مدیر ادبی دنیا نے ساغر کے آخری مجموعہ کلام “مقتل گل” میں اس مختصر آپ بیتی کو شائع کیا تھا۔ اس دور کے حوالے سے یہی آپ بیتی واحد ماخذ ہے۔ ساغر نے یزدانی صاحب کے سوالوں کے جواب میں اپنی سرگزشت کچھ یوں بیان کی ہے:
“میری زندگی زنداں کی ایک کڑی ہے۔ ١۹۲۸ء کے کسی ماہ میں پیدا ہُوا ہوں۔ گھٹنوں کے بل چلنے کا زمانہ سہارنپور اور انبالہ کی آغوش میں گزرا۔ انبالہ اردو اور پنجابی بولنے والے علاقے کا سنگم ہے۔ ماں کی مامتا, باپ کی شفقت, کہاں اور کیسے پیدا ہُوا ہوں؟ یہ میرے لئے ’کسی مقدس سرائے کے غلیظ باڑھے کے سوا کچھ بھی نہیں‘ یا ’علی بابا چالیس چور‘ کے پرسرار غار کی کہانی ہے۔ میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں خدا کو اس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟ ایک وجود کا تذکرہ میرے بارے میں لکھنے والوں نے کیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پر نظر رکھنے والے صاحب فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہُوا بازو, کالی کملی میں چھپائے, احساس کے اُلٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی بہن ہوتا تو شاید یہ حال نہ ہوتا۔ میں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سُنا۔ البتہ ایک پرشکوہ ماضی کی سرسراہٹ میں نے اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کی ہے۔ ١۹٣٦ء میں جب ذرا سوچ بوجھ کا زمانہ آیا تو ایک ویران مکان کی افسردہ دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے لکڑی کے پرانے صندوقوں میں دیمک چاٹتی ہوئی کتابیں دیکھیں۔ شاید ان کے پڑھنے والے ١۸٥٧ء کی گھٹاؤں میں ڈوب چکے تھے۔ ہاں رات کی تاریکی میں ایک کگر پر روشنی پھیلانے کی جستجو کرتا ہوا ایک دیا میرے مشاہدے کی پہلی چیز تھی, اس گھر میں مُجھ سے پہلے حاجی محمد حنیف اور خواجہ محمد حسین نام کے دو بزرگ آباد تھے۔ یہ کتابیں شاید انہیں کی تھیں۔ یہ بزرگ انبالہ شہر کی سماجی زندگی میں اچھی خاصی شہرت کے حامل تھے۔ اور ان کی پکی اور بیل بوٹوں والی قبر کا کوئی پتھر شاید آج بھی وہاں کے قبرستان کے کسی کونے میں موجود ہو۔“
ساغر نے اپنی اس آپ بیتی میں بیان کیا ہے کہ انہوں نے اردو کی تعلیم گھر میں حاصل کی۔ ساغر کے پہلے استاد ایک بزرگ تھے جن کا نام حبیب حسن تھا۔ انہیں سے ساغر کو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ کم عمری میں ہی اردو میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ لوگ اکثر خط لکھوانے ساغر کے پاس آیا کرتے تھے۔ بچپن میں ساغر کو روزنامہ زمیندار, احسان, انقلاب وغیرہ کے مطالعے کا بہت شوق تھا۔ اسی مطالعہ کی بناء پر ساغر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آج تک اردو کا کوئی لفظ نہ غلط پڑھا نہ لکھا۔ شروع میں تخلص ناصر حجازی رکھا۔ مگر دو ماہ بعد ہی اس کو چھوڑ کر ساغر صدیقی اپنا لیا۔ سولہ سال کی عمر میں ساغر نے امرتسر کی جامعہ السنہ شرقیہ کے ماہانہ طرحی مشاعرے میں شرکت کا اعزاز حاصل کیا۔ ١۹٤٤ء میں ڈاکٹر تاثیر و شمس العلماء تاجور نجیب آبادی کے زیر سایہ قائم بزم بنام ’اردو مجلس‘ کے مشاعروں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ امرتسر میں ساغر کا تعلق عرشی امرتسری, شمس مینائی, فرخ امرتسری مرزا، ایرانی آسی امرتسری, مرزا بیضا خان, عیسی امرتسری وغیرہ سے قائم رہا۔ پہلے ادبی دوست امین گیلانی بنے۔ ان کے علاوہ نفیس خلیلی , ظہیر کاشمیری , احمد راہی, مرزا جانباز سے بھی نشست و برخاست رہی۔ سید عطاءاللہ شاہ بخاری جیسے جید علماء سے استفادے کا موقع بھی ملا۔ ان دوستوں و بزرگوں نے ساغر کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ساغر نے ١۹٤٥ء میں ولی صابر کے عرس پر ہونے والے مشاعر میں نہ صرف شرکت کی بلکہ خوب داد بھی وصول کی۔ امرتسر میں ہی پہلے مرتبہ بڑے مشاعرے میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ مشاعرہ دوسری جنگ عظیم کے باغی آزاد فوج کے تین جرنیلوں کے استقبال کے لئے جلیانوالہ باغ میں منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں تقریبا تیس چالیس ہزار کا مجمع تھا۔ اس جلسہ میں ساغر نے جو نظم پیش کی اس کا ایک شعر کچھ یوں تھا :

ہو جس کا رخ ہوائے غلامی پہ گامزن
اس کشتی حیات کے لنگر کو توڑ دو

ساغر صدیقی پر اورینٹل کالج لاہور کے ایک طالب علم نے ایم اے کا تحقیقی مقالہ بھی لکھا ہے۔ اس مقالے سے ساغر کے حالات زندگی کے متعلق بہت سی معلومات ملتی ہے۔
تقسیم ہند کے بعد ساغر صدیقی لاہور آ گئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ لاہور آ کر آپ نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کے مقابلے میں بھی شرکت کی۔ بلکہ ساغر کی خواہش تھی کہ یہ ترانہ فلمایا جائے اور سینما میں بھی دکھایا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ساغر نے فدا شاہ جہان پوری اور نعیم شاہ کے ساتھ مل کر ترانہ لکھا اور فلمایا اور ریجنٹ سینما میں یہ اسکرین پر دکھایا بھی گیا۔ ساغر نے فلم ” انقلاب کشمیر ” بھی بنائی۔ اس کے علاوہ ساغر ہفت روزہ “تصویر” کے مدیر بھی رہے اور پھر اس کے بند ہونے پر ہفت روزہ ” فلمی اخبار ” کا ڈیکلیریشن منظور کروایا۔ اس کے فقط تین شمارے ہی نکل سکے اور اس کا ڈیکلیریشن غلام جیلانی نیازی نے خرید لیا۔ پھر ساغر کے حالات آہستہ آہستہ خراب ہونا شروع ہوئے اور آخرکار ساغر صدیقی نشے کی لت کا شکار ہو گئے۔ مگر ساغر نے خود نشے کو اختیار نہیں کیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مالک رام* لکھتے ہیں “١۹٥۲ءکی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے تھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور خاص ہمدردی سے انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔۔۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ساغر کے دوستوں میں سے بیشتر نے ان کے ساتھ‍ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے, اور اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو میں آنا جانا چھوڑ دیا۔ اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت “بے خود” رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور وہ بالکل آوارہ ہو گیا۔ نوبت بايں جا رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پانو۔۔۔۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹ لیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا۔” عبداللہ قریشی نے بھی اس کی گواہی دی ہے کہ لوگوں نے ساغر کا کلام چوری کیا وہ فرماتے ہیں ” فلمی دنیا کے لوگ اسے گھیر گھار کر لے جاتے ہیں اور اس کے ذہین دماغ کا رس گیتوں کی صورت میں نچوڑ لیتے ہیں۔ وہ خود اتنا بے پرواہ ہے کہ کوئی چیز سنبھال کر نہیں رکھتا۔” ساغر نے کئی معروف گیت لکھے جیسا کہ مہدی حسن کا گایا ہوا :

چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا ا ندھیرا ہے

سپوتنک کے ساغر نمبر سے ان کے مزید ١١ گیتوں کا پتا بھی ملتا ہے۔ ساغر کی کئی نعتیں ریڈیو پر بھی نشر ہوئیں۔ اب تک ساغر مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ بقول ڈاکٹر عصت اللہ زاہد ١۹٥۸ء میں ساغر نے جب ایک مشاعرے میں اپنی غزل پڑھی تو جگر صاحب نے یہ کہہ کر اپنی غزل پھاڑ دی کہ حاصل مشاعرہ غزل تو ساغر نے سنا دی ہے۔ اس غزل کا ایک معروف شعر درج ذیل ہے:

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

ساغر کے ہاں کئی ایسے اشعار ہیں جو آج بھی زبان زد عام ہیں۔ جیسا کہ ساغر کا یہ شعر:

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں

ساغر کا ایک اور ایسا کام ہے جو شاید اس کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ کم لوگوں کو علم ہے کہ معروف کلام “دما دم مست قلندر” ساغر صدیقی کی ہی تخلیق ہے۔
شہرت کے باوجود ساغر اپنی زندگی بہتر نہیں بنا سکے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ادبی حلقوں کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو ساغر سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ بلکہ شاعروں و گائیکوں نے ساغر کے حالات سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ساغر نے ریڈیو کے لیے کئی نعتیں لکھیں۔ مگر ساغر کو صرف ایک مرتبہ معاوضہ ملا وہ بھی تین ماہ ترسانے کے بعد۔ اگر ساغر کو اس کے کلام کا جائز معاوضہ مل جاتا تو ساغر کو کبھی اتنی مشکلات نہ دیکھنی پڑتیں۔ ساغر اپنے نشے کی وجہ سے جیل میں بھی تین ماہ رہا۔ ساغر کے ’دوست‘ چاہتے تھے کہ اسے جیل سے پاگل خانے بھیج دیا جائے مگر مجسٹریٹ کے سامنے ساغر کے انکار پر ایسا نہ ہوسکا۔
ساغر کی واحد سوانح شاید یونس ادیب کی کتاب “شکست ساغر” ہی ہے۔ اس کتاب سے ساغر کے شب و روز کی بابت معلومات تو ملتی ہے۔ لیکن یونس جی زیب داستان کے لیے بعض واقعات کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔ خیر اس کتاب میں بیشتر ایسے واقعات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ساغر اس بے حس معاشرہ میں رہ کر بھی اس جیسا نہیں بنا۔ ساغر کو جب بھی کچھ ملتا تو وہ اس کو بانٹ دیتا۔ ساغر کو ایک مرتبہ پانچ سو روپے ملے تو اس نے اعلان کیا کہ اب میں ریشم کا بستر بناؤں گا۔ مگر ساغر کچھ ہی لمحوں بعد خالی ہاتھ لوٹا دوست نے جب بستر کا پوچھا تو ساغر نے سڑک پار بجری پر لیٹے ایک ننگے شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا ’اس کو دیکھ بستر کا ارادہ ترک کردیا اور سارے روپے اسکو دے دئیے‘ ساغر کے حالات کا قدرت اللہ شہاب صاحب کو بتایا گیا مگر انہوں نے اختیار کے باوجود کوئی مدد نہ کی۔ ساغر کے متعلق بہت سے قصے ایسے بھی مشہور ہیں جو یار دوستوں کی افسانہ تراشی کا بہترین نمونہ تو ہیں مگر حقیقت کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ مثال کے طور پر ساغر کی داستان عشق کو دیکھا جا سکتا ہے جو کہ بالکل بے سر و پا ہے۔ یوں ہی ایوب خان سے ملاقات کا درج ذیل قصہ بھی زباں زد عام ہے۔ کہ ایوب خان نے ساغر سے ملنے کی خواہش کی مگر جب اہلکار ساغر کو تلاش کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچے تو ساغر نے انکار کر دیا اور کہا بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام۔ ان کے بے حد اصرار پہ آخر کار ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:

ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے

نیز پولیس افسر سے کہا یہ صدر صاحب کو دینا وہ سمجھ جائیں گے۔” جب کے بعض کے بقول ساغر نے یہ والا شعر لکھا تھا :

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی

ساغر کے حوالے سے یہ قصہ تقریباً ہر جگہ درج تو ملتا ہے لیکن محققین کے نزدیک اس واقعے کی صحت مشکوک ہے۔

ساغر کا آخری وقت بہت مشکل میں گزرا۔ ١٩٧٤ء میں ساغر فالج میں بھی مبتلاء ہو گئے۔ یونس ادیب نے درج ذیل الفاظ میں ساغر کے دنیا سے جانے کا احوال قلم بند کیا ہے “لاہور میں قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ یہ جولائی کے دوسرے ہفتے کی بات ہے۔ ایک دوپہر میں ریڈیو اسٹیشن سے نکل کر لوہاری درواز ے پہنچا تو مسلم مسجد کے مینار کے نیچے مجھے ساغر کی ایک جھلک دکھائی دی۔ اس نے اپنے نحیف و نزار جسم سے سیاہ چادر اُتار دی تھی اور ڈھیلا ڈھالا سفید کرتا پہنے چھڑی کے سہار ے کھڑا تھا۔ مجھے دیکھا اور کہا ’میں تمہیں ہی یاد کر رہا تھا کہ تم بھی نظارا کر لیتے اور ہاں تم ضرور پوچھو گے کہ فقیر نے سیاہ چادر کیوں اُتار دی ہے اور سفید کُرتا کیوں پہن لیا ہے‘ اور چھڑی دکھا کر بولا سب کچھ بتاؤں گا پہلے میری صلیب دیکھو۔ یہ کہتے ہوئے پھر اُس کا دم اُکھڑنے لگا اور اُس نے کھانس کر بلغم تھوکی تو دم لے کر کفن نما سفید کُرتے کو چھو کر بولا , مقتل کی طرف جانے کی گھڑیاں آ گئی ہیں اور میں نے کفنی پہن لی ہے۔ میں نے جلدی سے پوچھا ‘ لیکن تم ہو کہاں؟’ اُس نے اپنی بے نور ہوتی آنکھوں سے عینک اُتار کر پرے پھینک دی اور بولا ’ اب کچھ دیکھنے کو دل نہیں چاہتا اور جا بھی کہاں سکتا ہوں۔ صرف چولا بدلنے گیا تھا۔ اب تو میں نے سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔‘ مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے روشنی اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے۔۔۔۔۔۔اُنہی دنوں طالب چشتی روتا ہوا ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُس نے گلوگیر آواز میں بتایا۔ بابا جی خون تھوک رہے ہیں اور پان گلی کے باہر منیر چھولیاں والے کے تھڑ ے کے نیچے پڑ ے ہیں۔ میں طالب کے ساتھ لوہاری پہنچا تو ساغر وہاں نہیں تھا۔ ہم نے انار کلی، ایبک روڈ، آبکاری روڈ، پیسہ اخبار، شاہ عالمی اور سوتر منڈی میں ہر جگہ اُسے تلاش کیا لیکن ساغر کا کوئی نشان نہ ملا۔ دوسر ے دن میں ریڈیو اسٹیشن جانے کی بجائے صبح ہی صبح لوہاری چلا گیا اور اُسے مکتبہ جدید کے سامنے دیکھ کر میرا دم گھٹنے لگا۔ راہگیر اُسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور دکان دار اپنے اپنے گاہکوں میں مصروف تھے۔ حالانکہ سارا شہر اُسے خون تھوکتے ہوئے اس طرح دیکھ رہا تھا۔ جیسے لوگ رومن اکھاڑ ے میں جمع ہوں اور خونیں منظر دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہوں۔ جس میں ساغر کفن پہنے بوجھل سانسوں کے ساتھ نیم جان ہو کر اپنے آپ کو گھسیٹ رہا تھا۔ اُس کے کفن پر خون کے دھبے اس طرح جگمگا رہے تھے جیسے خنجر بکف جلاد اُس پر ٹوٹ پڑ ے ہوں۔ اس نے بند ہوتی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہا تو اُس کے منہ سے خون نکل کر اُس کے ہونٹوں پر پھیل گیا، اُس نے سفید آستین سے پونچھ کر دوبارہ کچھ کہنے کی آرزو کی تو خون کی لکیریں اُس کی کفنی پر بہنے لگیں۔ اپنے ہی خون میں شرابور ساغر صدیقی اس ہنستے بستے شہر میں کئی دنوں تک مقتل کا نظارا بنا رہا، اُس وقت ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم رائٹرز گلڈ کے انتخابات پر پانی کی طرح روپیہ بہایا جا رہا تھا اور بہت سار ے خوش حال ادیب اور شاعر رائٹرز گلڈ سے معذوروں کا وظیفہ بھی پا رہے تھے۔ لیکن ساغر جس نے عمر بھر صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر حُسن و پیار اور رحم کے گیت تراشے تھے، اپنے خون آلود کُرتے میں لپٹا تیسر ے دن بے کسی کے ساتھ مر گیا تھا۔ اسے کس نے کفن پہنایا اور کون لوگ دفن کرنے قبرستان گئے۔ یہ شکستِ ساغر کی آخری گمشدہ کڑی ہے اور جس طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس ماں کی گود میں آنکھ کھولی؟ کس باپ کی شفقت سے محروم ہوا؟ اور کس بھائی نے اُسے پیار سے پکارا اس طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے قبر میں اُتارنے والے کون تھے؟۔۔۔ اُس کی آخری آرام گاہ پر یہ الفاظ کنندہ ہیں’عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اُس کی پگڑی کہاں گری ہے اور اُس کا سر محبوب کے قدموں پر کس انداز سے گرتا ہے۔’ لیکن اُس کے کسی مداح نے اُس کے کتبے پر یہ الفاظ لکھوائے ہوئے ہیں (کچھ علم نہیں)۔ (البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ) ساغر کا قاتل یہ معاشرہ ہے۔”
ساغر کو کئی القاب ملے۔ کسی نے اس کو ’درویش شاعر‘ کہا تو کسی نے اس کو ’درد کی بشارتوں کا شاعر‘ قرار دیا۔ کوئی اس کو ’گواچا لعل‘ کہتا ہے تو کوئی ساغر کو ’سیاہ پوش‘، ’آوارہ جنوں‘ یا ’زندگی کا عکاس شاعر‘ قرار دیتا ہے۔ جبکہ مرزا ادیب کا کہنا ہے کہ ساغر ’ایک زندہ نام ہے۔‘ لیکن ساغر کو عموماً نقادوں نے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ یا تو بہت کم لکھا گیا یا میں اس سب سے اب تک محروم ہوں۔ البتہ محترمہ فرخندہ لودھی نے ساغر کا مقام یوں بیان کیا ہے “وہ اپنی بے گور لاش اپنے کندھوں پر اٹھائے شہر کی گنجان سڑکوں پر پھرتا رہا۔ چوراہوں پر مجمعے لگاتا رہا اور شعر و سخن کو پنجاب کی صوفیانہ روایت کے مطابق نبھاتا رہا۔ شاہ حسین, بلھے شاہ, وارث شاہ اور میاں محمد بخش کے قلندرانہ مسلک کا پیرو شاعر ساغر صدیقی انہی حالوں موت سے ہمکنار ہوا جو ایسے بڑے شاعروں کا مقدر ہوتی ہے۔ ان شاعروں اور ساغر صدیقی میں صرف زبان کا فرق ہے ورنہ وہ اسی روایت کو لے کر لاہور کے گلی کوچوں, فٹ پاتھوں پر ڈیرہ لگاتا رہا جو پنجاب کے ان بڑے صوفی شعراء کی ریت تھی۔” میرا خیال ہے کہ ساغر کے فن پر اس سے جامع تبصرہ نہیں ہوسکتا۔
ساغر کی قبر پر کچھ عرصہ قبل حاضری دی۔ آج قبر کی حالت بہت بدل چکی ہے۔ اب تو یہاں میلہ بھی لگتا ہے۔ کیسا عجب ہے یہ سماج کہ اپنی زندگی میں سڑکوں پر ننگے پیر پھرنا والا یہ درویش جو اکثر خالی پیٹ سوتا تھا، آج اس کی قبر پر لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ نہ جانے اس کے مہربان دوست اس کی زندگی میں کہاں تھے۔ انہوں نے کیوں ساغر کو نشے سے نہ بچایا۔ ساغر کے قتل میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ میں کافی دیر ساغر کی قبر سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا۔ ساغر ویسے بھی میرے پسندیدہ شعراء میں سے ہے۔ وہاں پر ایسا محسوس ہوا جیسے ساغر کی زندگی کی فلم آنکھوں کے سامنے چلنا شروع ہو گئی ہو۔ خون تھوکتا ساغر اور اس پر ہنستے لوگ۔۔۔۔ ساغر ١۹٧٤ء میں مرا مگر ہم تو اب تلک نہ بدلے ہم نے کئی ساغر اسی طرح مار دیے۔ آج اس کی قبر پر ٹائلیں ہیں مگر اس کا ساغر کو کیا فیض وہ تو تمام عمر فٹ پاتھ پر رُلتا رہا۔ یہ سچ ہے کہ ساغر کا اپنی بربادی میں خود بھی بڑا ہاتھ ہے مگر اس کو اس حال تک پہچانے والے اس کے گرد پائے جانے والے موقع پرست تھے۔ جنہوں نے دوستی جیسے مقدس رشتے کو داغ دار کیا۔ جنہوں نے ساغر کے کلام سے کمائے مال سے تا عمر عیش کی اور وہ آج اس کی قبر پر فاتحہ تک پڑھنے کے روادار نہیں۔ ساغر نے یہ اشعار شاید اپنے لیے ہی کہے تھے:

میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

طلحہ شفیق

* مضمون میں جن مالک رام کا تذکرہ ہے ان کے کوائف مجھے دستیاب نہیں ہوئے۔ ان کا مضمون ساغر کے ایک مجوعہ کلام میں شامل ہے۔ یہ غالباً معروف نقاد ڈاکٹر مالک رام نہیں ہیں۔
نوٹ: کسی شخص کو بھی بغیر پیشگی اجازت اس تحریر کو کسی بھی طرح نقل (کاپی) کرنے کی اجازت نہیں۔ البتہ پوسٹ پبلک ہے احباب شئیر کر سکتے ہیں۔ کسی کو بھی پڑھنے میں دشواری نہ ہو گی۔

ساغر صدیقی کے چند اشعار

فیضِ عالمؒ کے سَبز گُنبد پر
رَحمتوں کا نُزُول ہوتا ہے
اُن کے دَر سے سُکُون مِلتا ہے
جَب کبھی دِل مَلُول ہوتا ہے

دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
کچھہ لوگ بھروسہ کرتے ہیں تسبیح کے چلتے دانوں پر
بے چین یہاں یزداں کا جنوں انسان یہاں بھی اندھے ہیں
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصوّر بھوکا ہے ، سلطان یہاں بھی اندھے ہیں

فقط اک ہات میں ٹوٹا ہوا ساغر اٹھانے سے
لرز اٹھا ہے اے یزدان ! تری عظمت کا مینار

ڈالی ہیں ترے خاک نشینوں نے کمندیں
ہر چند حولات کے در بند رہے ہیں
ہر دور میں دیکھا ہے مری فکر رسا نے
کچھ لوگ زمانے کے خداوند رہے ہیں

ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں

راہزن آدمی راہنما آدمی
با رہا بن چکا ہے خدا آدمی
ہائے تخلیق کی کار پردازیاں
خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی
کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے
سہہ گیا آدمی کی جفا آدمی

وہ گزر گیا ہے ساغر کوئی قافلہ چمن سے
کہیں آگ جل رہی ہے کہیں آگ بجھ گئی ہے

نہ کوئی پھول نہ ساغر نہ مہتاب نہ
بجھا ہوا سا شبستان ہے زندگی

ٍ لب و رخسار کے عوض ہم نے
سطوت خسروی کو بیچ دیا
رہگزاروں پہ لٹ گئی رادھا
شام نے بانسری کو بیچ دیا

اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغبان ہیں برق و شر سے ملے ہوئے

توہین ہے اس شہر میں درویش کا جینا
ہو فاقہ کشی نام جہاں صبر و رضا کا
بے نور مروت کی آنکھیں بے کیف عنایت کے جذبے
ہر سمت بدلتے عنواں ہیں درویش کی جھولی خالی ہے

یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
مرا شعور مزاج عوام بدلے گا

کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا
اشک بھی حرفِ مدعا نہ ہوا

حوروں کی طلب اور مئے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد! ترے عرفاں سے کچھہ بھول ہوئی ہے

کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے

فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا
تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کاٹنے والو
نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی ہے سب اچھا

آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑ دیا

ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا

یہ کیا قیامت ہے باغبانو کہ جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر

سمجھی ہے جسے سایۂ امید عقل خام!
ساغر کا ہے خیال بڑی تیز دھوپ ہے

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

بھُولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

اس اندھیروں کے عہد میں ساغر
کیا کرے گا کوئی اُجالوں کو

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغر
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

مرے عزیزو، مرے رفیقو، کوئی نئی داستان چھیڑو
غم ِ زمانہ کی بات چھوڑو، یہ غم تو اب سازگار سا ہے

سنوارو گے کبھی زلف پریشان ہم نہیں ہوں گے
چمن میں چاندنی ہوگی غزل خواں ہم نہیں ہوں گے

یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں

حالات کے دامن میں افلاس تغیر ہے
اس دور میں انسان کی توقیر گداگر ہے

یہ واعظ و پارسا خدایا
تری فضیلت کو بیچتے ہیں
خرد کا لیتے ہیں نام ساغر
جنوں کی عظمت کو بیچتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں