افغانستان پاکستان کیلئے ایک عجیب مخمصہ بنا ہوا ہے اور یہ صورت حال آج سے نہیں ہے بلکہ انیس سو سینتالیس سے روز کسی نئےتماشے سے وطن عزیز کو سابقہ پڑ رہا ہے۔افغان طالبان دوبارہ مسندنشیں ہوئے تو اس کو ایسے پیش کیا جانے لگا کہ جیسے افغانستان کی سر زمین سے اب ہماری جانب بس باد نسیم کےجھونکےہی آئیں گے مگر صورت حال یہ ہے کہ جھونکوں کی بجائے جھٹکے مقدر بن رہے ہیں ۔ جس رفتار اور تعداد سے افغان سر زمین کی جانب سے ہماری زمین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،بالخصوص ہمارے فوجی جوان جس طرح جام شہادت نوش کر رہے ہیں وہ خطرے کے نشان سے بہت اوپر کے حالات ہیں ۔ اس بڑھتے خطرے کے حوالے سے وزیر داخلہ ، وزیر دفاع اور آرمی چیف تک سب نے واضح طور پر افغان طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کریں ، حال ہی میں آرمی چیف نے افغان طالبان سے دوحہ معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرنے پر بھی گفتگو کی ۔ تاہم تشویش ناک امر یہ ہے کہ کابل سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ معاہدہ تو صرف امریکہ کے ساتھ تھا اور اس کا کسی دوسرے ملک سےکچھ لینا دینا نہیں ۔ اگر یہ تاثر درست ہے اور کابل کا حقیقی معنوں میں یہی مؤقف ہے تو ہماری آنکھیںکھل جانی چاہئیں، ویسے آنکھوں کے کھلنے کیلئے تو یہی کافی ہے کہ آرمی چیف کے بیان کے بعد دو کالعدم گروہوں نے جو بیانات جاری کئے وہ ان کے عزائم کو مکمل طور پر عیاں کر دیتے ہیں اور اس میں کوئی شک کی گنجائش موجود نہیں کہ یہ کالعدم گروہ افغانستان کی سر زمین سے متحرک ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو اس صورت حال سےکس حکمت عملی کے تحت نبرد آزما ہونا چاہئے ۔ ہمارا صرف یہ مسئلہ نہیں کہ دہشت گردی کے مقابلے میں ہمیں سینہ سپر ہونا ہے بلکہ ہمیںاپنے شہریوں کو بھی محفوظ رکھنا ہے ،اس بات کا بھی تعين کرنا ہے کہ ہماری افغان حکمت عملی میں وہ کون کون سی کوتاہیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم اس تکلیف دہ صورت حال سے مستقل طور پردوچار ہیں ۔ افغانستان کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ دارانہ وہ پالیسی تھی کہ جس کا اظہار دو ہزار تیرہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کیا تھا کہ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں اور اسی مؤقف کا اظہار افغان انتخابات کے موقع پر بھی کیا گیا تھا ۔مگر جب دو ہزار اکیس میں افغان حکومت طالبان کے ہاتھ آئی تو’’تبدیلی سرکار‘‘کے سربراہ کی جانب سے بیان دیا گیا کہ طالبان نےغلامی کی بیڑیاں توڑ دی ہیں۔ اس بیان سے عالمی برادری کو یہ محسوس ہوا کہ پاکستان کے قول و فعل میں تضاد ہے، حالاں کہ اس وقت حد درجہ احتیاط کی ضرورت تھی مگراس کے برعکس کیا گیا ۔ ہمیں اب بھی خود کو ہرممکن حد تک افغانستان کی داخلی سیاست سے دور رکھنا چاہئے اور اس تاثر کو رفع کرنا چاہئے کہ پاکستان کسی مخصوص گروہ یا طبقے کے صاحبِ اقتدار ہونے کی صورت میں اپنا رویہ تبدیل کر لیتا ہے اور افغان طالبان سے دو ٹوک گفتگو کرنی چاہئے۔ اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ ان کی بھی اگر کوئی شکایات یا مطالبات ہیں تو ان کو سنا جائے اور ٹھنڈے دل سے غور کرتے ہوئے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیارکیا جائے کہ جس سے کابل بھی مطمئن ہو سکے مگر اس تمام عمل کے دوران دہشت گردی پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی برقرار رہنی چاہئےکیوں کہ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ جب بھی دہشت گرد عناصر سے مذاکرات کی روش اختیار کی گئی تو انہوں نے اس کو معاملات سدھارنے کی بجائے صرف وقت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا اور اس دوران صرف اپنی صفوں کو سیدھا کرتے رہے یہاں تک کے سابق پی ٹی آئی کی حکومت نے تو یہ اقدام بھی کردیا کہ ان میں سے ہزاروں افراد کو واپس آنے دیا اور اس اقدام کے بدترین نتائج سے پاکستان نبرد آزما ہے ۔
افغان پالیسی کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے بہت سے حساس امور کو بہت باریک بینی سے دیکھنا ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان معاشی حوالے سے ایک دوسرے سے منسلک ہیں خاص طور پر پختون علاقوں میں یہ رشتہ اور بھی زیادہ مضبوط ہے پھر مذہبی تعلق ، طلبہ سب ایک حقیقت ہے ۔ پاکستانی علاقوں میں کسی بھی سخت کارروائی سے قبل ان تمام عوامل کو مد نظر رکھنا لازم ہے ۔ یاد رہے کہ جب سوات آپریشن ہوا توبڑے پیمانے پر آبادی کو نقل مکانی کی ضرورت پیش آئی ۔ اب ہمارے پاس اس حوالے سے بہت تجربہ موجود ہے اور ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اس تجربہ کو بروئے کار لائیں تاکہ شہریوںکو کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہو، ممکن ہو تو افغان طالبان کو بھی سمجھائیں کہ وہ دوبارہ و ہی روش اختیار کر رہے ہیں جو انہوں نے ماضی میں اپنائی تھی ۔ اُس وقت بھی افغان طالبان یہی محسوس کر رہے تھے کہ وہ اتنے مضبوط ہیں کہ ان کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہو سکتا لیکن پھر وہ بد ترین حالات کا شکار ہوئے ۔ ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے ۔
