“ومن الذین قالواانا۔۔۔۔۔۔۔۔یصنعون”
(آیت : 14)
ترجمہ:
“اور ہم نے ان لوگوں سے عہد و پيمان لیا جنہوں نے کہا: ہم نصرانی ہیں پھر انہوں نے اسے بھلا دیا جو ہم نے انہیں یاد دلایا تھا تو ہم نے ان کے درمیان روز قیامت تک دشمنی و نفرت پیدا کر دی اور بہت جلد اللہ انہیں ان کے انجام کار سے باخبر کر دے گا”
موضوع آیت:
“دینی حقائق سے دوری کا نتیجہ”
تفسیر آیت:
“ومن الذین قالواانا۔۔۔۔۔۔یصنعون”
اس سے پہلی آیات میں یہود کی عہد شکنی اور حکم عدولی کرنے اور اس کے نتیجہ میں خدا کی لعنت اور دیگر مختلف عذابوں میں مبتلا ہونے کا تذکرہ تھا اور اب اس آیت میں نصاریٰ کی عہد شکنی حکم عدولی اور اس کی پاداش میں بعض عذابوں میں گرفتار ہونے کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
*نصاری سے کیا عہد لیا گیا تھا؟*ٰ
وہ عہد یہی تھا:
1️⃣ وہ دین الہٰی کی نصرت کریں گے اور خود انہوں نے “نحن انصار اللہ” کہہ کر اس عہد و پيمان کا اقرار بھی کیا تھا
2️⃣ آخری پیغمبر ﷺ کے آنے کی بشارت اور اس پر ایمان لانے کی تاكيد انجيل میں آنحضرت ﷺ کے لیے “فارقلیط” کا لفظ استعمال ہوا ہے جو “احمد” کا ترجمہ ہے مگر وہ اس عہد و پيمان پر ثابت قدم نہ رہے دین الہٰی کی نصرت کرنے اور اس پر ثابت قدم نہ رہے دین الہٰی کی نصرت پر ثابت قدم رہنے کی بجائےخالص توحید کا دامن چھوڑ دیا اور تثلیث کے نامعقول خود ساختہ نظریہ کو اپنا لیا اور آخری پیغمبر ﷺ پر ایمان لانے والے عہد کو يكسر نظر انداز کر دیا اور الٹا ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے جس کے نتیجے میں خدائے جبار و قہار نے بطور سزا ان کے درمیان ایسی مذہبی و سیاسی عداوت اور دشمنی ڈال دی جو قیامت تک برقرار رہے گی اور ان کا مذہبی و سیاسی افتراق و اختلاف کبھی ختم نہ ہو گا۔
نصاریٰ کے مذہبی فرقے :
جناب عیسیٰ علیہ السلام کا دین جو وہ منجانب اللہ لائے تھے ایک تھا نصاریٰ نے اس کے حصے بخرے کر دیئے اور دین مسیح کے نام پر تین فرقے وجود میں آگئے:
1️⃣ نسطوریہ:
جو جناب عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔
2️⃣ یقوبیہ:
جو جناب عیسیٰ علیہ السلام کو خدا سے متحد مانتے تھے
3️⃣ ملكائیہ:
جو جناب عیسیٰ علیہ السلام کو تین خداؤں میں سے ایک خدا قرار دیتے ہیں اور موجوده دور میں ان کے بڑے بڑے دو گروہ ہیں:
1️⃣ پروٹسٹنٹ
2️⃣ کیتھولک
ظاہر ہے جہاں عقائد و نظریات میں اختلاف ہو وہاں باہمی عداوت و دشمنی تو ضرور ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر فرقہ دوسرے کو کافر و ملحد کہتا ہے جس کی وجہ سے ان کے درمیان اس قدر جنگ و جدال اور قتل و قتال ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے اپنے ہاتھوں میں سے اتنا خون بہہ چکا ہے کہ جتنا دوسروں سے جنگ و جدال میں بھی نہیں بہا اور پھر ان کے باہمی سیاسی اختلاف اور باہمی رقابتیں اس پر مستزاد ہیں
“جرمنی کی آویزش فرانس سے برطانيہ کا غصہ روس پر فرانس کی عداوت اسپين سے اور امریکہ کی بدگمانی اٹلی وغیرہ وغیرہ”
( ماجد دریا آبادی)
اس باہمی رقابت و عداوت کا ثمرہ دنیا ماضی قریب میں دو عالمگیر جنگوں کی شکل میں دیکھ چکی ہے جن میں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔
ایک ہی دین کے ماننے والوں کا اس طرح مختلف فرق و مسالک میں بٹ جانا اور پھر ہر فرقہ کا دوسرے کو کافر و ملحد قرار دینا اور پھر مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہانا یہ اللہ کا عذاب نہیں تو اور کیا ہے؟
تازیانہ عبرت!
حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن نے یہود و نصاریٰ کے یہ واقعات و انحرافات اس لیے بیان کئے تھے کہ مسلمان ان سے درس عبرت حاصل کریں اور فرقہ آرائی کی گمراہی سے اپنے تئیں بچائیں اور ہوشیار ہو جائیں اور کہیں ایسے جرائم کا ارتكاب نہ کریں جن کی سزا یہود و نصاریٰ بھگت رہے ہیں ورنہ ان کا انجام بھی ان سے مختلف نہ ہو گا کیوں کہ:
“عبرتیں کس قدر زیادہ ہیں اور عبرت حاصل کرنے والے کس قدر کم ہیں”
بہت افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ اگر آج ایک اسلام کے تہتر اسلام بن چکے ہیں اور آج اگر مسلمان مختلف فرقوں اور مسالک میں تقسيم ہو چکے ہیں اور پھر ایک دوسرے کو کافر و ملحد قرار دے کر ایک دوسرے کا خون ناحق بہا رہے ہیں اور غیر مسلم عالم کو تماشہ دکھا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ باہم لڑ جھگڑ کر اپنے آپ کو کمزور سے کمزور تر اور دشمن کو طاقتور سے طاقتور بنا رہے ہیں اور اسے یہ کہنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں کہ:
“اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے”
یہ تو ان کی عہد شکنی بےراہ روی اور شامت اعمال کا قدرتی نتیجہ ہے
“وسوف ينبھم اللہ بما کانوا یصنعون”
اور عنقريب اللہ ان کو بتائے گا کہ وہ ( دنیا میں کیا کرتے تھے)
حاصل بحث آیت:
“یہود و نصاریٰ پر اللہ کی نعمت ان کے ساتھ عہد و میثاق کا ذکر کرنے سے پہلے خود مسلمانوں پر اللہ کا جو احسان ہوا ہے اس کا ذکر کیا تا کہ مسلمان یہ سمجھ لیں کہ اللہ کی کائناتی سنت کیا ہے وہ قومیں جو اللہ کی نعمتوں کے بارے میں ناشکری ہوئی ہے اور اللہ کے عہد و پيمان کے بارے میں بدعہدی کرتی ہیں ان کا انجام کیا ہوتا ہے مسلمانوں کے لیے اس میں بہت بڑی عبرت ہے”