ارشد اسدی الحسینی

👈 نورانی اور تاریک چہرے

سورۃ آل عمران
آیات 106/107
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
👈 يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ۞ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللہِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۞

جس دن کچھ چہرے سفید (نورانی) ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے۔ تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا) کہ تم نے ہی ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا؟ تو اب اپنے کفر کے نتیجہ میں عذاب کا مزا چکھو۔ ۔ اور جن کے چہرے سفید (نورانی) ہوں گے وہ خدا کی رحمت میں ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ ۔
🕯️تفسیر نمونہ🕯️

۔یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَ تَسْوَدُّ وُجُوہ ۔
اس تنبیہ کے بعد کہ جو گذشتہ آیات میں تفرقہ بازی،اور کفر و جاہلیت کے زمانہ کے آثار کی طرف پلٹ جانے کے بارے میں کی گئی تھی ، ان دو آیات میں ان کے آخری نتائج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کس طرح کفر ، تفرقہ بازی ،نفاق و جاہلیت کی طرف پلٹ جانا روسیا ہی کا سبب ہے اور کس طرح اسلام و ایمان اور اتحاد و خلوص سفید روئی کا سب ہیں۔ مندرجہ بالا آیات تصریح کر رہی ہیں کہ روز قیامت کچھ چہرے نورانی ہوں گے اور کچھ تاریک ۔ جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ،ان سے کہا جائے گا کہ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیوں اختیار کیا اور اسلام کے زیر سایہ اتحاد و اخوت کی راہ اپنانے کے بعد نفاق و جاہلیت کی راہ کیوں اختیار کی ۔ ان کے مقابلہ میں وہ مومنین جو متحد و متفق رہے ہوں گے دریائے رحمتِ الٰہی میں ڈوب جائیں گے اور ہمیشہ کے لئے وہاں راحت و آرام کی زندگی بسر کریں گے۔ کئی دفعہ یہ یاد دہانی کرائی جا چکی ہے کہ دوسرے جہان میں انسان کی زندگی کے حالات و کیفیات اور جزا و سزا اس جہان کے اعمال اور افکار کے مجسمے ہوں گے- دوسرے لفظوں میں اس جہان میں جو کام بھی انسان سے سرزد ہوتا ہے وہ روح کی گہرائیوں میں وسیع اثرات مرتب کرتا ہے۔ممکن ہے اس دنیا میں اسے نہ سمجھا جا سکے ، لیکن قیامت میں یہ حقیقی صورت میں جلوہ گر ہوں گے اور چونکہ وہاں روح کی حاکمیت و تجلی زیادہ ہو گی اس لئے اس کے آثار جسم پر بھی مرتب ہوں گے ۔جیسا کہ اس جہان کا ایمان و اتحاد سفید روئی کا سبب ہے اور اس کے برعکس بے ایمان لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے ۔ اگلے جہان میں یہ مجازی سفیدی اور سیاہی حقیقی شکل اختیار کرے گی اور لوگ روشن یا سیاہ چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے ۔ قرآن کی دیگر آیات بھی اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں ۔مثلاً جو لوگ بار بار گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے بارے میں قرآن ارشاد فرماتا ہے:کاَنمآ اُغشیتُ وجوھھم قطعاً مّن الّلیلِ مُظلماً (یونس:۲۷ ) گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے تاریک ٹکڑوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔
ویومَ القِیٰمة ترَی الّذینَ کذبوا علیٰ اللہ وجوھھم مُسوَدٌّ (زمر:۶۰)
قیامت کے دن تو ان لوگوں کو دیکھے گا جو خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں کہ ان کے چہرے سیاہ ہیں اور یہ سب کچھ ان کے کئے ہوئے اعمال کی پاداش ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں