قوموں کی ترقی ایک طویل سماجی، سیاسی اور ثقافتی شعوری سفر کی متقاضی ہوتی ہے۔ ان تمام کی کنجی، بنیاد اور شروعات تعلیم ہے، آپ گھر بیٹھ کر بے شمار کتابیں پڑھیں، امتحان میں اعلیٰ گریڈ حاصل کریں، آپ کی سوچ میں جو وسعت، نظریاتی سمجھ بوجھ اور تفہیم یونیورسٹی کا احاطہ مہیا کرتا ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔یہ شخصیت سازی کا دور ہوتا ہے، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں غرضیکہ پورا ماحول انسان کے اندر کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ یہاں جو کچھ سیکھا جاتا ہے اور زندگی کا جو رخ دکھایا جاتا ہے یا جس رخ کی تربیت کی جاتی ہے وہی تمام عمر ساتھ چلتا ہے۔ افراد اور ملک و قوم کا وسیع تر مفاد یونیورسٹیوں کی چار دیواری سے وابستہ ہونے کے باعث ان کے ناظم کی حیثیت، قابلیت، سماجی و تعلیمی شعور بہت اہمیت رکھتا ہے۔میرٹ بناتے ہوئے آپ صرف نمبر دیکھ کر فیصلہ نہیں کر سکتے، قائدانہ صلاحیتوں اور مسائل کی سمجھ بوجھ، نئے دور کے تقاضوں کی تفہیم، چیلنجز کا سامنا، مشکلات کا رونا رونے کی بجائے حل تلاش کرنے کی حکمت عملی رکھنا بہت ضروری ہے۔ اچھی شخصیت کے ساتھ فکری دانش اور تدبر کے حامل وائس چانسلرز یونیورسٹیوں کو حقیقی معنوں میں دانش گاہیں بنا دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں پاکستان میں مختلف یونیورسٹیوں میں انقلابی تبدیلیوں کے امام، ڈاکٹر ضیا القیوم سے طویل نشست کا موقع ملا۔ڈاکٹر ضیاء القیوم کے یونیورسٹی آف گجرات کے وائس چانسلری کے دور میں مجھے یہاں کی کئی کمیٹیوں اور علمی، ادبی اور فکری پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا، ہر پروگرام میں ان کی مثبت اور تعمیری سوچ نے شدید متاثر کیا۔انھوں نے چار سال میں یونیورسٹی آف گجرات کو عروج کی طرف لے جانے میں جو بھی تدبیر کی خدا نے انھیں سرخرو کیا۔میں نے ہمیشہ انھیں جذباتی مقرر کی بجائے زیرک اور مدبر منتظم پایا جو زمانے کی نبض کو محسوس کر کے پالیسیاں بناتا اور ناقدوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قائل کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔ تین عشروں سے پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ رہنے کی وجہ سے اب جامعات کی اندرونی اور بیرونی تمام بیماریوں کی تشخیص کا ماہر ہو چکا ہے۔ اگر اس کے سفر کی چند کامیابیاں اجاگر کی جائیں تو ہمدرد یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس کی تشکیل میں کلیدی کردار نبھایا، فاسٹ نیشنل یونیورسٹی کے فیصل آباد چنیوٹ کیمپس کے تصور سے تعبیر تک راہبری کرتے ہوئے عمدگی اور ریکارڈ مدت میں کیمپس کو تکمیل کے مراحل سے گزار کر کامیابی کےجس سفر پر ڈالا وہ ایک مثال ہے۔ انکی صلاحیتوں کی خوشبو پھیلی تو 2014ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے انہیں ایک نئی اور بہت سے امکانات کی راہ دیکھتی جامعہ، یونیورسٹی آف گجرات کی سربراہی کا فریضہ سونپا، گجرات کی مشکل سیاسی اور معاشرتی فضا میں بڑے معرکے سرانجام دینا ایک بڑا چیلنج تھا جسے ڈاکٹر ضیا نے اپنی فہم وفراست اور سچی لگن سے ممکن بنایا اور یونیورسٹی کو کسی گروپ کے تسلط سے بچا کر آزادانہ ماحول بنائےرکھا۔ پھر وقت نے دیکھا اور لکھا کہ ایک نئی جامعہ جدید تدریسی معیار کو اپنا کر درسگاہ سے دانش گاہ کی طرف سفر آغاز کر چکی ہے۔پنجاب کی گواہی نے انھیں مرکز میں خدمت کا موقع عنایت کیا۔ 2018ء میں اسلام آباد میں موجودپورے ملک کی تعلیم سے جڑی اعلیٰ مگر فکری جمود،انتظامی بحران اور مالیاتی مسائل کی شکار فاصلاتی نظام کی پرچارک، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو جدید جامعہ میں بدلنے کا ٹاسک بخشا گیا تو چار سال میں دیانتداری و ٹرانسپیرنسی کی بدولت ادارے کی آمدنی میں اربوں روپے کا اضافہ کیا۔ مالی استحکام سے اصلاحات کی کامیابی کے ثمرات کا عکس یونیورسٹی کے درودیوار سے جھلکنے لگا۔ میرٹ پر داخلے اور بھرتیاں کر کے ادارے کی ساکھ بحال کی۔ لاکھوں کی تعداد میں داخلوں کے ساتھ ساتھ ریسورس مینجمنٹ،فکری مکالمے کی فضا، عالمی معیار کی کانفرنسز،سیمینارز، سیرت چیئر، اقبالیات کا فروغ، تاریخی شعور پر مکالمے جیسے انقلابی پروگرام شروع ہوئے۔
ڈاکٹر ضیاء تواناوژن اور عملیت پسندی پر یقینِ محکم کے شخص بلکہ اعلیٰ تعلیمی نظام کے لیڈر ہیں۔ایسے وژنری لوگ قوموں کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ریاست و حکومت اور محب وطن تعلیمی اشرافیہ کا فرض اور ان کی حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ایسے ہیراصفت قیمتی لوگوں کو قومی سرمایہ سمجھ کر ان سے کام لیا جائے اور انہیں ضائع ہونے یا برین ڈرین کا شکار ہونے سے بچایا جائے۔ہم شخصی تعصب، محکمانہ بغض اور عناد سے ایسے گوہر نایاب گنواتے رہے ہیں اسی لئےاس حال کو پہنچے ہیں۔ڈاکٹر ضیاالقیوم آجکل فارغ ہیں،حکومت کی طرف سےکوئی نیا اور بڑا چیلنج ملنے کے منتظر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ انھیں بیرون ملک سے کئی جامعات کی طرف سے آفرز ہیں شاید وہ کوئی قبول بھی کرلیں کہ کام کرنے والا بندہ زیادہ دیر فارغ نہیں بیٹھ سکتا لیکن اپنے ملک کی ترقی سے محبت کا تقاضا ہے کہ قابل، دیانت دار اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والوں کو ملک سے باہر نہیں ملک کے اندر خدمت کا موقع دیا جائے۔
