ایس ایم ظفر نابغہ روزگار شخصیت

کسی بھی شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے شعبہ کی نامور شخصیات سے ملاقات کرے ایک شاعر ادیب اپنے عہد کے معروف شعراء کرام ادباء سے ملنے کا متمنی ہوتا ہے ایک فنکار کسی سٹار سے ملنے کا خواہاں ہوتا ہے ایسے قانون کے طالب ہونے کے ناطے ہماری بھی آرزو تھی کہ قانون میں سند کی حیثیت رکھنے والی ایک شخصیت کے نیاز حاصل ہوں اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہم وحید گیلانی کے رہین منت ٹھہر ے جن سے میری ملاقات جرمنی میں مقیم دوست عدیل
حسین کے توسط سے ہوئی۔ انہوں نے جناب ایس ایم ظفر سے ملاقات کا اہتمام کیا قانون سے میرا تعلق میری عمر جتنا پرانا ہے والد ماجد سیشن جج رہے چھوٹے بھائی بھی قانون دان ہیں اس لئے میں قانون کی موشگافیوں کو سمجھنے کے لیے سرگرداں رہتا ہوں کبھی گمان تک نہیں گذرا کہ میں قانون میں کوئی اتھارٹی ہوں خواجہ شریف صاحب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور والد ماجد اعجاز احمد بٹر سیشن جج تھے لیکن انکی خواجہ شریف سے محبت و عقیدت کا یہ عالم تھا کہ والد ماجد کو عدلیہ میں ڈپٹی چیف سے تعبیر کیا جاتا تھالیکن تب میں نے قانون کی دنیا میں قدم ہی رکھا تھا اور والد ماجد کی رحلت کے بعد محسوس ہوا کہ تعلق کیا ہوتے ہیں اور نبھائے کیسے جاتے ہیں بس ہم بھی تعلق کی پہلی اینٹ رکھنے کے لیے اسلام آباد سے چل پڑے شاداں و فرحاں لاہور جناب ایس ایم ظفر کے نعمت کدہ پر پہنچے انہوں
پرتپاک استقبال کیا جس سے اندازہ ہوگیا کہ بڑے لوگ ایسے ہی بڑے نہیں ہوتے
جناب ایس ایم ظفر کا ضلع نارووال ہے اور والد ماجد 2000میں بطور سول جج نارووال تعینات رہے ہیں راقم السطور بھی نارووال ڈگری کالج تعلیم حاصل کرچکا ہے یوں جناب ایس ایم ظفر سے تعلق کا ایک معقول حوالہ تو موجودہے اور نارووال بڑا ذرخیز خطہ ہے ادب ہے کہ سیاست یا قانون نارووال کے لوگوں نے عالمگیر شہرت حاصل کی ہے جیسے جناب ایس ایم ظفر ہیں اور جناب فیض احمد فیض
ایس ایم ظفرصاحب کی ملکی و ملی خدمات تو ہیں ہی انکی علاقائی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے آپ وزیر قانون تھے انکے گاؤں ’چک قاضیاں‘ میں بجلی آئی۔ پختہ سڑکیں بن گئیں ’مینگڑی‘ سکول جہاں قیام پاکستان سے پہلے بھارت کے معروف لوگ وزیر بیورکریٹ اور قیام پاکستان
کے بعد پاکستان کی معروف شخصیات زیر تعلیم رہیں ایس ایم ظفر صاحب نے اس وقت تقریباً ستر لاکھ کے قریب گرانٹ لے کر دی تب لاکھ واقعی لاکھ ہوتا تھا ایس ایم ظفر صاحب تختیوں کی سیاست اور خدمت نہیں کرتے تھے انہوں نے بطور سینٹر اپنے علاقہ کے لئے بہت کام کیا لیکن کبھی نمائش نہیں کی کیمرے والے نہیں بلائے
لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس سید زاہد حسین کا تعلق بھی چک قاضیاں ضلع نارووال سے ہے جو جناب ایس ایم ظفر کے قریبی عزیز ہیں اور میرے خیال میں ایس ایم ظفر صاحب کی قربت کا فیض ہی انہیں اس مرتبے تک لے گیا
اس ملاقات میں ایس ایم ظفر صاحب نے اپنے پاس بٹھایا اور بڑے مشفقانہ احساس سے مالامال کیا انہوں نے بتایا کہ دس سال ہوئے وکالت کو خیر باد کہے نصف صدی سے زائد وکالت کو وقت دیا فرمانے
لگے آپ جانتے ہیں میں وکالت سے ریٹائر کیوں ہوا؟ میں نے سر کو نفی میں ہلا یا فرمانے لگے ایک تو وکالت میں ریسرچ ٹیم کا بڑا رول ہوتا ہے وہ تمام لوگ ہائی کورٹ کے جج بن گئے ادھر عمر کا تقاضا اور تیسرا اب ایسی عدالتوں کے سامنے بندہ کیا بات کرے جو سب پہلے ہی جانتی ہے کیونکہ جس دور میں ہم وکالت کا مزہ لیا کرتے تھے
تب عدالتیں کہتی تھیں ہمیں فلاں پوائنٹ پر وضاحت کریں جب کہ ایسا لگتا ہے آج کی بعض عدالتیں سب کچھ جانتی ہیں انہیں وضاحت کی ضرورت نہیں پڑتی
میں نے عرض کی عالیجاہ وکالت کے تین اصول بتادیں انہوں نے فرمایا دیکھو برخوردار پہلا تو حقائق کا آپکو علم ہونا چاہئے دوسرا ان حقائق کے بارے قانون کیا کہتا ہے یہ معلوم ہونا چاہئے نہ صرف معلوم بلکہ اس قانون کی تشریح کا علم ہونا چاہئے اور حقائق کا علم آپکو
اپنے موکل سے زیادہ ہونا چاہئے تیسرا ہمیں معزز جج کے مزاج سے آشنائی ہونی چاہئے۔اس موقع پر انہوں نے ایک لطیفہ سنایا کہ ایک دفع ایک وکیل صاحب ایک مذہبی جج صاحب کے سامنے کسی کمپنی کی نمائندگی کررہے تھے تو وکیل صاحب نے جج صاحب کو مخاطب کرتے کہا یہ ایک مذہبی کمپنی ہے اور محفل میں سب مسکرا اٹھے
آخر میں انہوں نے اپنے والد ماجد کی زندگی پر لکھی کتاب ’حیات کشفی‘ تحفے میں دی جو میرے لئے ایک قیمتی تحفہ ہے کہ اس کتاب پر ایس ایم ظفر صاحب نے اپنے ہاتھ سے میرے لئے دعائیں لکھیں
قارئین کرام! مذکورہ کتاب تو میں پڑھ کر فیض پاؤں گا لیکن آپکو بتاتا چلوں کہ جناب ایس ایم ظفر کے والد ماجد پیر سید اشرف کشفی صاحب ایک ولی کامل تھے جناب سید اشرف کشفی بڑے خدا ترس تھے یہ خاندان نوجوانوں کی خدمت کرتا لیکن کسی کو خبر نہ ہوتی طلباء کی مالی امداد فرماتے لیکن لینے والے کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ رقم کہاں سے آئی ہے وہ مستحق کی امداد کو فرض عین سمجھتے جنکی وہ امداد کیا کرتے تھے وہ بڑے عہدوں پر گئے لیکن کبھی کسی کو معلوم نہیں ہوا کہ پیسے کہاں سے آئے ایسا سسٹم مقرر کررکھا تھاانہوں نے دوسروں کی مالی معاونت کا۔ بابا جی سید اشرف کشفی صاحب کے مریدوں کا حلقہ بڑا وسیع ہے لیکن کسی کو اجازت نہ ہوتی کہ انکے لئے کوئی چیز لے آئے بلکہ وہ دوسروں کو دے کر بھیجتے کہ یہ فلاں کو دے دینا یہ کرایہ لے جائیں کہیں کسی گاؤں میں پانی کا مسئلہ ہوتا تو فرماتے گاؤں کی خواتین پانی بھرنے دور جاتی ہیں یہاں کنواں کیوں نہیں بناتے لوگ کہتے ہم کنواں بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے تو بابا جی کشفی صاحب پیسے دیتے کہ کنواں کھوداجائے بابا جی کشفی ایسے ولئی کامل تھے کہ بابا جی نے اپنی وفات کا دن تک بتا دیا تھا کہ فلاں دن وہ رحلت کر جائیں
گے فلاں دن سب پہنچ جائیں اور اسی روز وہ دنیا سے پردہ کر گئے وہ دوسروں کیلئے اتنا کرتے کہ لوگ کہتے بابا جی خرچ کرتے ہیں کہ لٹاتے ہیں ’چک قاضیاں‘ نارووال میں بابا جی کشفی کا مزار شریف ہے جہاں دور دور سے مرید جاتے ہیں اور انکے لئے آج بھی وہاں رہنے کا بندوبست ہے کھانے پینے کا اہتمام ہے بابا جی کے عرس پرایک ہجوم عاشقاں ہوتا ہے اپنے والد ماجد کی طبعیت کی فیاضی جناب ایس ایم ظفر صاحب نے بھی پائی ہے ایس ایم ظفر صاحب نے بھی دوسروں کیلئے جو کیا کبھی اسے آشکار نہ کیا مختصر یہ کہ ایسے لوگ کسی بھی معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں