بہادری آزاد لوگوں کا شیوہ ہے، غلاموں کا نہیں،غلاموں کی سوچیں محدود ہوتی ہیں،وہ صرف وہیں تک سوچتے ہیں جہاں تک ان کے زمینی آقا اجازت دیتے ہیں،غلاموں کی اپنی زبان بھی نہیں ہوتی،وہ ہمیشہ کسی کی زبان بولتے ہیں،غلاموں کی نہ دوستیاں اپنی ہوتی ہیں اور نہ ہی دشمنیاں،ان بے چاروں سے کہا جاتا ہے کہ آپ یہاں تک بول سکتے ہیں،اس سے آگے کچھ بھی کہنا جرم تصور کیا جائے گا،غلاموں کے لئے راستے بھی محدود کر دئیے جاتے ہیں،وہ سانس تو لیتے ہیں،کھانا بھی کھاتے ہیں مگر انہیں ہر کام کے لئے آقا کی اجازت درکار ہوتی ہے ،حالیہ دنوں میں امت مسلمہ کی حالت زار دیکھ کر غلامی کے تمام پہلو یاد آگئے ہیں،سب سے بری غلامی منافقت پر مبنی ہے،منافق کو کافر سے بھی برا اسی لئے کہا گیا ہے مگر رسم دنیا ہے کہ منافق وقتی فائدے حاصل کرلیتا ہے،غلاموں کی ایک قسم منافقوں پر مشتمل ہے،دراصل انہی لوگوں کی وجہ سے ظالم قوتیں جبر کے سارے ہنر آزماتی ہیں،جب زمینی آقا ایک غلام کو مارتا ہے تو باقی تالیاں بجاتے ہیں اور اگر کبھی زمینی آقا اور اس کے حواری کسی غریب پر چڑھ دوڑیں تو پھر یہی غلام غریب سے ہمدردی بھی جگاتے ہیں مگر غریب کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ بہت سے تو اس مار دھاڑ میں زمینی آقا کے ہمنوا بن جاتے ہیں،غلاموں کا خوف ختم نہیں ہوتا،یہ ڈر انہیں اندھا بنا دیتا ہے،کہیں حکومتوں کے چھن جانے کا خوف آن بستا ہے تو کہیں دولت سے محروم ہوجانے کا دکھ بسیرا کر لیتا ہے،خوف کے ان سایوں میں غلام اندھے ہوتے جاتے ہیں ،وہ چند روزہ زندگی کی خاطر بھائیوں کے خون کا سودا کرتے ہیں دراصل غلاموں کو خواہشات نے اندھا کر رکھا ہے،وہ خدا سے زیادہ زمینی خداؤں سے ڈرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کس طرح فلسطینی مسلمانوں کو بموں سے بھونا جارہا ہے مگر انسانی حقوق کا ماتم کرنے والی دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے چونکہ انسانی حقوق کا راگ مغربی دنیا زیادہ الاپتی ہے لہٰذا زیادہ ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ سارا مغرب ظالم اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے،یہ ساتھ صرف زبانی نہیں بلکہ عملی ہے جبکہ اس دوران کمزور ملک یا تو چپ ہیں یا پھر مظالم کی مذمت کررہے ہیں،مغربی دنیا میں لوگ تمام بڑے شہروں میں احتجاج کررہے ہیں،چلو یہ خود کو مہذب دنیا کہنے والوں کا ایک طریقہ سہی مگر اسلامی دنیا تو اس سے بھی محروم نظر آتی ہے،اسلامی دنیا کے بزدل اور کمزور حکمرانوں کی حالت تو یہ ہے کہ وہ احتجاجی مظاہرے بھی نہیں کرنے دیتے،یہی غلامی کی علامت ہے آج کی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ وہ ملک طاقتور ہیں جن کی معیشت بہت مضبوط ہے مگر شاید یہ فلسفہ اسلامی دنیا پر لاگو نہیں کیونکہ اس وقت مضبوط معیشت کے حامل کئی اسلامی ممالک ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں،سب کچھ ہونے کے باوجود ایک ان دیکھے خوف نے انھیں خواہشات کا غلام بنا رکھا ہے ،ان کی باتوں میں ایک جھوٹی سچی مذمت کے علاوہ کچھ نہیں، مذمتوں کا یہ سفر برسوں سے جاری ہے،ان مذمتوں سے آج تک تو کچھ بھی تو حاصل نہیں ہوا، ہاں البتہ ہر بار ندامت ضرور ہوئی ہے۔ فلسطینیوں پر ظلم جاری ہے اور مسلمان ملکوں کے غلام حکمران چپ ہیں بلکہ وہ تو اپنے زمینی آقاؤں کی محبت میں شہر عیش بسا رہے ہیں ،انہیں کتاب حکمت کے طفیل سمجھایا گیا تھا کہ’’یہود و نصاریٰ ،تمہارے دوست نہیں ہوسکتے‘‘ دوستی تو دور رہی مسلمان ملکوں کے حکمرانوں نے ان کی غلامی قبول کرلی، یوں انہوں نے اپنے لئے پستیوں کا انتخاب کیا،اب وہ ہلکا پھلکا احتجاج کرتے ہیں،مذمت کرتے ہیں مگر یاد رکھیے کبھی احتجاجوں اور مذمتوں سے ظالم کے ہاتھ نہیں رکے،ایسے ہاتھ روکنے کے لئے تلوار نکالنا پڑتی ہے،اللہ کے پیارے رسول ﷺنے مسلمانوں کو دنیاوی محبتوں سے آزاد کیا تھا،دولت اور جائیدادوں کی محبت سے آزاد کیا تھا افسوس مسلمان دولت اور جائیدادوں کے اسیر بن کر رہ گئے،یہی اسیری ان کی غلامی کی علامت ہے۔ بہت دنوں کے بعد یمن نے ہمت کی ہے،اس سے پہلے حماس کےپر عزم جوان اکیلے ڈٹ کر مقابلہ کررہے تھے،ہمیں ان کی ہمت پر داد دینی چاہیے کہ انہوں نے خود کو مضبوط دفاعی حصار کا حامل قرار دینے والے اسرائیل کو پریشان کردیا ہے،اسرائیلی ادارے پریشان ہیں کہ ہمارے ٹینک عام راکٹوں سے کیسے تباہ ہورہے ہیں ،تباہی کے سارے مناظر دیکھ کر مسلمان ملکوں کے غلام حکمران سو رہے ہیں کہ بقول اقبالؔ
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
