دنیا ئے اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کا یہ المناک باب ہے کہ حکومتیں تبدیل ہونے کا پرامن جمہوری اسلوب اپنایا جاسکا نہ اس سلسلے میں اعلیٰ انسانی روایات کو مستحکم بنایا جاسکا۔ اس المیے کی سزا ہم آج بھی نہ صرف پاکستان میں بھگت رہے ہیں بلکہ اس مملکتِ بدنصیب کی پون صدی پر محیط تاریخ کا یہ المیہ صاف طور پر محسوس کیاجاسکتا ہے۔
ہماری مسلم امہ کا انحطاط جو بھی تھا غلبے کی تاریخ بھی کم از کم اس سلسلے میں درخشاں مثالیں دینے سے قاصر رہی ہے۔ ہم لوگ و امر وھم شوریٰ بینھم کا ڈھول تو ضرور پیٹتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ مشاورت تو بادشاہتوں میں بھی اپنے امراء سے ہوتی ہے آج کے سعودی عرب میں بھی اس پر عمل درآمد یا کاربند ہونے کا بیانیہ جاری و ساری ہے قدیمی قبائلی سسٹم میں بھی نہ صرف بعد بلکہ قبل از اسلام سے مشاورت کا تصور پوری طرح موجود تھا۔ قبائل کے سرداران بیعت سے ہی مقرر ہوتے تھے عربوں میں ”امر“ حکم، حکومت یا حکمرانی کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا چلا آرہا تھا اس بیعت کو ہم فی زمانہ ووٹ کے معنوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ہم یہ فرمان بھی پڑھتے ہیں کہ الآئمہ من القریش ، سقیفہ بنو ساعدہ میں اسی ریفرنس کو بطور اتھارٹی پیش کیا گیا تھا۔ جو لوگ عرب نفسیات سے آگاہی رکھتے ہیں وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ عرب کسی کمزور فرد یا قبیلے کی حکمرانی قبول کرنے کے اپنی فطرت کے لحاظ سے خوگر نہ تھےسارے عرب میں قریشیوں کی دھاک بوجوہ مسلمہ تھی۔اسی لیے ہولی پرافٹ کے بعد حکمرانی پر قریشیوں نے ہی فائز ہونا تھا اور وہی ہوئے ہولی پرافٹ نے رتبہ نبوت کے باوجود اپنے بعد کے لیے کوئی باضابطہ نامزدگی نہیں فرمائی گویا یہ فیصلہ سوسائٹی پر چھوڑ دیا معروف ایرانی دانشور ڈاکٹر علی شریعتی کا استدلال ہے کہ ”سقیفہ بنو ساعدہ میں جو کچھ ہوا مسلمانوں کے درمیان ہونا تو وہی کچھ چاہیے تھا لیکن آنحضرتؐ کی رحلت کے فوری بعد اس وقت نہیں بلکہ دو صدیوں بعد“ جبکہ درویش کی رائے ہے کہ اگر یہ سب اس وقت نہ ہوپاتا تو صدیوں بعد اس نوع کا مطالبہ بھی نہ اُٹھایا جاسکتا وہی چیز کم از کم اصولی طور پر روایت بن جاتی جس سے انحراف مشکل تر ہوجاتا۔
آج اگر ہم چاروں خلفاء کی تعیناتی کا جائزہ لیں تو چاروں کا طریق انتخاب ہی مختلف النوع ہے سیدنا علی کی شہادت کے بعد سیدنا حسن کو آپ کا جانشین یا خلیفہ چنا گیا لیکن سیدنا حسن نے بوجوہ حکمت عملی کے تحت امیر شام کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے از خود خلافت سے دستبرداری اختیار کرلی اس پر بحث ہوسکتی ہے کہ یہ صلح کن شرائط پر ہوئی تھی اور ان پر کس حد تک عملدرآمد ہوا آگے چل کر اصل ایشو اس وقت اُٹھ کھڑے ہوا جب امیر شام نے اپنے بیٹے یزید کی بطور خلیفہ نامزدگی فرمادی یہاں اس کی بیعت کا ایشو کھڑے ہوا بالخصوص حضرت معاویہ کی رحلت کے بعد۔
سیدنا امام حسین کو اہلِ عراق کی طرف سے یہ یقین دلایا گیا تھا کہ آپ تشریف لائیں ملوکیت کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے ہم آپ کے ساتھ تن من دھن سے تیار ہیں مولا حسین نے اس میں دیر کرنا خلافِ مصلحت و حکمت جانا حالانکہ حرمِ نبوی میں ابن عباس جیسی بنو ہاشم کی مدبر ترین شخصیت کی رائے قطعی مختلف تھی جنہوں نے یہ تنبیہ فرمائی کہ حسین میں دیکھ رہا ہوں آپ عثمان کی طرح اپنے کنبے کے سامنے قتل کردیے جاؤ گے بہتر ہے کہ کوفہ جانے کی بجائے یمن کا راستہ اختیار کرو اور وہاں کے الجھے ہوئے مضبوط پہاڑوں میں اپنی مزاحمتی تحریک چلاؤ لیکن اہلیانِ کوفہ کے حمایتی پیغامات اس قدر زیادہ تھے کہ امام پاک نے ادھر روانگی کا عہد باندھ لیا۔ آپ حرم میں یومِ عرفہ قریب ہونے کے باوجود عازمِ کوفہ ہوگئے مگر کوفیوں نے اپنے عظیم امام سے بے وفائی کی داستان رقم کردی۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اتنا درد ناک ہے اور کلیجہ ہلا دینے والا ہے جسے پڑھتے اور سنتے ہوئے آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں اور اہلِ ایمان پندرہ صدیوں سے روتے ہوئے ماتم کناں ہیں۔ یہ پوری داستانِ حرم کس قدر اذیت ناک ہے کہ پورے خاندانِ نبوت کو بشمول نواسۂ رسولؐ یوں بے دردی کے ساتھ کسی غیر نے نہیں خود کلمہ گو مسلمانوں نے قتل کرڈالا۔ سینوں سے آہیں کیوں نہ اُٹھیں گی کہ اے پیغمبر اسلامؐ کے لاڈلے فرزند تیرے قاتل ہنود و یہود یا مسیحی نہ تھے خود تیرے بابا کے امتی تھے جو چلا رہے تھے کہ حسین کو جلدی مارو ہماری نمازِ جمعہ قضا ہورہی ہے انہیں ذرا شرم نہ آئی کہ وہ آخر کس کے شیر خوار بچے کی گردن پر تیر مار رہے ہیں اور کس کی لاش پر گھوڑے دوڑا رہے ہیں ان ظالموں نے ظلم کی اخیر کردی مظلوم امام کی پیش کردہ آخری تین شرائط میں سے کسی ایک کو ہی مان لیتے ظلم کی انتہا ہے کہ ایسی صلح حدیبیہ سے بھی دبی ہوئی مظلومیت کی مظہر شرائط کو بھی غرور و تکبر کے ساتھ مسترد کردیا گیا اپنے ہاتھ نواسۂ رسولؐ کے خون میں رنگنے کی بجائے اگر اپنی مسلم ایمپائر کی حدود سے باہر نکل جانے دیتے زیادہ سے زیادہ کیا تھا کہ آقا حسین سرزمین ہند پر تشریف لے جاتے مگر ان یزیدوں نے اس کی مہلت بھی نہ دی۔ یہ مظلومیت کی اتنی بڑی شہادت ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کو بھی نہیں مانتے وہ بھی سیدنا حسین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے گویا ہیں کہ حسین مظلومیت کی آواز اور عظمت کا شاہ بلوط تھا۔ وہ عظیم امام جبر کے خلاف انسانی حقوق اور انسانی وقار کا علمبردار تھا رہتی دنیا تک جو بھی جبروآمریت سے ٹکرائے گا وہ سیدنا حسین کو اپنے آس پاس پائے گا۔ حسین ابن علی پر لاکھوں سلام شاہ است حسین بادشاہ است حسین، سرداد نہ داد دست درِ دستِ یزید حقہ کہ بنائے لا الہ است حسین
