کتنے ہی ماہ و سال ہو گئے میں اسی سوچ بچار میں رہا کہ شاہ حسین لاہوری کے متعلق کچھ لکھوں ۔میں نے کئی دفعہ شاہ حسین کی بارگاہ میں حاضری دی مگر کبھی ہمت نہ ہوئی کہ ملامتی رند کے متعلق کچھ لکھ سکوں ۔مجھے شاہ حسین پر لکھنے کے لیے فقیر کی کیٹا ،جام مے ،درویشانہ روپ ،رندانہ بہروپ ،ملنگوں کا رقص ،مست الست مجذوبوں کا گروہ اور شہر لاہور کے گلی کوچے درکار تھے ۔میری ہمت بندھانے کے لیے شاہ حسین کی درویشی ،جرات ،ملامتی رنگ اور روح کا نغمہ چاہیے تھا ۔مجھے شاہ حسین کے فقیروں میں شامل ہو کر بادشاہوں کے محلات سے دور میکدہ آںاد کرنا تھا ۔شاہ حسین کے ساتھ ملکر اس شہر بے مثال کے باغات میں جام تھامے دیوانہ وار رقص کرنا تھا ۔راوی کے کنارے شاہ حسین کی اقتداء میں نماز عشق ادا کرنی تھی ۔میں ہمیشہ ان سب باتوں کا منتظر رہا مگر میرے مقدر میں یہ سب کہاں ۔میرے من میں نہ سوز ،نہ تڑپ ،نہ رنگ ،نہ روپ ،نہ گیت ،نہ سنگیت ،نہ مستی ،نہ سر مستی ،نہ فقیری ،نہ درویشی ،نہ رندی ،نہ مے نوشی ،نہ ملامت ،نہ رقص ،نہ دھمال ،نہ دھواں ،نہ حال ،نہ کیف و سرور ،نہ وجد و جلال ،نہ وحدت ،نہ کثرت ،نہ ھو ،نہ ھاہوت ،نہ ملکوت ،نہ جبروت ،نہ عشق ،نہ محبت ،نہ پیری ،نہ فقیری ،نہ فقر ،نہ فاقہ ،نہ جذب ،نہ ضبط ،نہ وصل ،نہ وصال ،نہ فراق ،نہ تڑپ ،نہ ترنم ،نہ سرو لے اور نہ ہی نعرہ ھو ھو پھر بھی میں شاہ حسین لاہوری کا نام لیوا ہوں ۔اس لیے ہمت کر کے فقیر و درویش لاہور کی بارگاہ میں حاضری پیش کرتا ہوں ۔درحقیت یہ ان کا باطنی تصرف ہے ورنہ میں اس رند بادہ نوش پہ لکھ نہ پاتا ۔آئیے اب ہم شاہ حسین لاہوری اور اس کے درویشوں سے ملاقات کرتے ہیں ۔
لاہور شہر کا اک اک کونہ تاریخ کے اوراق ہیں ۔ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب بجا فرماتے ہیں کہ لاہور کی تاریخ کو بیان کرنے کے لیے صدیاں درکار ہیں ۔شہر لاہور کے ہر گلی کوچے میں کسی نہ کسی فقیر کی کیٹا ہے ،کہیں کوئی خانقاہ ہے ،کہیں کوئی تکیہ ہے ،کہیں کوئی میکدہ ہے ،کہیں کوئی درگاہ ہے ،کہیں رندوں کا ڈیرہ ہے ،کہیں کوئی چوبارہ ہے ،کہیں کوئی چھجو بیٹھا ہے ،کہیں کوئی بھگت سر جھکائے ہے ،
کہیں کوئی سادھو دم سادھے بیٹھا ہے ،کہیں کوئی فقیر اپنے انداز میں محبت کے زمزے گا رہا ہے ،کہیں کوئی درویش محو رقص ہے ،کہیں کوئی میلہ ہے ،کہیں بسنت بہاری ہے ،کہیں جشن بہاراں ہے ،کہیں راوی کنارے جشن ہے ،کہیں صوفیوں کے حجروں سے پیار کا نغمہ سنائی دے رہا ہے ۔کہیں مسجدوں میں واحدانیت کا نعرہ مستانہ لگ رہا ہے ،کہیں گوردواروں میں گرنتھ کی آواز ہے ،کہیں گرجوں میں ہارمونیم کی ترنگ ہے ،کہیں مندروں میں بھجن کے بول سنائے جا رہے ہیں ،کہیں دل ملائے جا رہے ہیں ،کہیں عشاق کی آہیں ہیں ،کہیں محبوبوں کی ادائیں ہیں ،کہیں الہڑ مٹیاریں چوباروں پہ کھڑی زلفیں لہرا رہی ہیں ،کہیں پرندے منڈیروں پہ بیٹھے گل کاریاں کر رہے ہیں ۔
کہیں مندروں کی گھنٹیاں ہیں ۔ کہیں سماع کی محفلیں برپا ہے ،کہیں چائے خانوں میں ادیبوں کا ہنگامہ ہے ،کہیں پھول کھل رہے ہیں ،کہیں کلیاں مرجھا رہی ہیں ،کہیں ملاں ،پنڈت ،قاضی فتوے لگا رہے ہیں ،کہیں شعراء اپنا حال دل سنا رہے ہیں ،کہیں ہولی کے رنگ ہیں ،کہیں دیوالی کی روشنی ہے ،کہیں عید اور شب برات کے پکوان ہیں ،کہیں بیساکھی کا تہوار ہے ،کہیں باغات میں لگے درخت خوشی سے جھوم رہے ہیں ،
کہیں بسنت ہے ،کہیں رقص و سرور کی محفل ہے تو کہیں گیت سنگیت کی آواز ہے ،کہیں کوئی پائل بج رہی ہے تو کہیں ڈھول کی تھاپ پہ دھمال جاری ہے ۔کہیں ملنگ نابت بجا رہے ہیں ،کہیں درویشی دھویں کی مہک ہے ،کہیں شاہ حسین اپنے فقیروں کے ساتھ ڈھول پیٹتےجا رہے ہیں۔اس کے گرد درویشوں کا ہجوم ہے ۔فرقہ ملامتیہ کےرند شہر محبت میں ہاتھوں میں جام تھامے ھو ھو کے نعرے لگا رہے ہیں ۔
کہے حسین فقیر سائیں دا
میں نہیں سب توں
گو اس شہر بے مثال کے ہر طرف سے اک ہی آواز ہے ۔
ست دن تے اٹھ میلے گھرجاواں کیہڑےویلے
تہذیب و ثقافت ،تازگی و بشاشت ،شگفتگی و رنگینی ،تاریخ و کلچر ،روایات و رسوم کا توانا ماضی رکھنے والا شہر لاہور اگر کسی ایک فقیر اور ملامتی رند پہ فخر کر سکتا ہے تو وہ شاہ حسین لاہوری ہے ۔شاہ حسین شہر لاہور کا عظیم سپوت تھا ۔شاہ حسین کے آباؤ اجداد صدیوں سے اسی شہر کے باسی تھے ۔شاہ حسین کامل معنوں میں لاہوری تھا جو اس شہر کے رسم ورواج کا امین تھا ۔لاہور شہر میں موجود اہم کرداروں کی اکثریت دنیا بھر سے ہجرت کر کے داتا کی نگری پہنچی تھی ۔ان کو خاصا وقت لگتا تھا کہ وہ شہر کی مخصوص فضا کو سمجھ سکیں ۔شاہ حسین کا معاملہ مختلف ہے ۔
شاہ حسین 1538 کو پیدا ہوئے اور ان کا بچپن بارہ دروازوں کے اندر گزرا تھا ۔اس کی شخصیت شہر لاہور کے رنگ کی عکاس تھی ۔اس کے مزاج میں وسعت تھی ۔وہ فقیر تھا مگر اس شہر کا حقیقی سپوت تھا ۔شاہ حسین کے والد شیخ عثمان ٹکسالی دروازے کے اندر رہائش پذیر تھے اور وہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے ۔شاہ حسین کے دادا کلس رائے ہندو تھے اور وہ فیروز شاہ تغلق کے عہد میں مسلمان ہوئے ۔شاہ حسین کا خاندانی نام ڈھاڈھا حسین تھا ۔ڈھاڈھا پنجاب کے راجپوتوں کی اک شاخ ہے ۔ان کو والد کے کاروبار کی وجہ سے ٹکسالی دروازے کے مکین حسین جولاہا بھی کہتے تھے ۔
ٹکسالی دروازے کے محلے تل بگھ میں پلنے بڑھنے والاڈاڈھا حسین دریائے راوی کا عاشق تھا ۔سترہویں صدی کے وسط تک دریائے راوی قلعے کی دیوار کے ساتھ بہتا تھا ۔آج کل گوردارہ ڈیرہ صاحب میں مقید معروف روشنائی دروازہ ان دنوں تجارت کے لیے استعمال ہوتا تھا ۔اہلیان لاہور راوی کے کنارے اپنا وقت بیتاتے تھے اور آج کل تو راوی لاہور سے روٹھا ہوا مگر اس کے کناروں پہ ہلکی پھلکی تفریح کسی نہ کسی شکل میں اب بھی جاری ہے ۔
بچپن میں شاہ حسین جب بھی اپنے آنگن سے باہر قدم رکھتا تو دریائے راوی کی بے رحم موجیں اس کا استقبال کرتی ہوتی تھیں ۔دریائے راوی شہر لاہور کا حقیقی روپ تھا ۔اس کے اردگرد جنگل تھے ۔سادھو ،فقیر ،درویش اور جوگی ان جنگلوں میں آوارہ گردی کرتے تھے ۔شاہ حسین کا سینہ بھی راوی کے پانی نے ہی منور کیا تھا اور یہ قصہ بڑا دلچسپ ہے ۔شاہ حسین کو بچپن میں ان کے والد نے ٹکسالی گیٹ میں بڑی مسجد کے حافظ ابو بکر کے پاس بھیجا ۔اس دور میں مساجد مکتب ہوتی تھیں ۔شاہ حسین نے دس سال کی عمر میں سات پارے حفظ کیے تو ایک دن جھنگ لالیاں دریائے چناب کے کنارے آباد گاؤں بہلول کا باسی حضرت بہلول لاہور وارد ہوا ۔اس نے حافظ ابوبکر سے پوچھا آپ کے پاس شاہ حسین پڑھتا ہے اس کو بلائیں ۔شاہ حسین حضرت بہلول کے پاس آئے تو انہوں نے شاہ حسین کو دریائے راوی سے وضو کے لیے پانی لانے کو کہا ۔جب شاہ حسین راوی کنارے پہنچے تو دریاؤں کے حاکم سر سبز بزرگ حضرت خضر ؑ کی ملاقات شاہ حسین سے ہوئی ۔حضرت خضر ؑنے کہا بیٹا چلو بھر پانی میرے ہاتھ پہ ڈال دو ۔ شاہ حسین نے جب حضرت خضر ؑکے ہاتھوں پہ پانی ڈالا
تو انہوں نے وہ پانی شاہ حسین کے منہ میں انڈیل دیا ۔حضرت خضرؑ کے کارنامے بھی عجب ہیں جس پہ نظر ڈال دیں وہ درویش و فقیر بن جاتا ہے ۔شاہ حسین واپس پلٹنے لگے تو حضرت خضر ؑنے کہا مسجد میں موجود بزرگ کو میرا سلام کہیو ۔راوی کے پانی کے چند قطرے دست خضر ؑکے ذریعے حلق سے اترنے کی دیر تھی کہ شاہ حسین کے باطن کی دنیا بدل گئی ۔
مسجد جاکر سارا قصہ دریائے چناب کے کنارے رہنے والے حضرت بہلول کے گوش گزار کر دیا ۔بہلول نے حافظ ابوبکر سے پوچھا مسجد میں تراویح کون پڑھاتا ہے ۔انہوں نے کہا میں ہی یہ کار خیر کر گزرتا ہوں ۔بہلول نے کہا شاہ حسین کیوں نہیں تراویح پڑھاتا تو حافظ ابوبکر نے کہا اس نے صرف سات پارے حفظ کیے ہیں ۔
حضرت بہلول نے کہا اس سال شاہ حسین تروایح پڑھائے گا ۔شاہ حسین نے جب تروایح پڑھانا شروع کی تو سات پارے جلد ختم ہو گئے ۔شاہ حسین کو بہلول نے کہا جاؤ راوی سے پانی لاؤ ۔وہ پانی پینے کی دیر تھی کہ ستائس رمضان تک سارا قرآن سنا دیا ۔مخلوق خدا حیران تھی کہ یہ سب کیسے ہوگیا ۔
بہلول نے شاہ حسین کا بازو تھاما اور انہیں راوی کنارے داتا علی ہجویری کے سپرد کر کے اپنے وطن کی راہ لی ۔شاہ حسین کی زندگی بدل چکی تھی وہ مجاہدات و عبادات میں مشغول رہے ۔ظاہری شریعت کے پابند تھے ۔
ایک دن دلی دورازے کے باہر شاہ محمد غوث کی درگاہ پر اک درس میں شریک تھے ۔جب یہ آیت سنی دنیا کھیل کود کے سوا کچھ نہیں تو سب کچھ چھوڑ دیا ۔اس کے بعد زندگی کے ستائیس سال سرخ قمیض پہنی ،ہاتھ میں عصائے فقیری پکڑا ۔مذہب عشق اختیارکیا اور اپنے آپ کو ملامت کے لیے زمانے کے سامنے پیش کر دیا ۔فرقہ ملامتیہ جو صدیوں سے چلا آرہا تھا اس کے سرخیل بنے ۔رندوں کی جماعت اردگرد جمع ہوتی گئی ۔شہر لاہور کی گلیوں میں سرخ جوڑا پہنے شاہ حسین تماشا اہل کرم دیکھتا رہا ۔راوی اس فقیر کی جاگیر ٹھہرا ۔گلیوں بازاروں میں نابت بجانا اور دیوانہ وار رقص کرنا اس کا محبوب مشغلہ بنا ۔ہاتھوں میں جام تھام کر شہر لاہور کا سب سے بڑا ملامتی ہونے کا اعزازا اپنے نام کیا ۔
شاہ حسین کا یہی رنگ اس کی زندگی کا نمایاں پہلو ہے ۔
۔راتوں شہر لاہور کے پرہیزگاروں کی عبادت میں خلل ڈال کر شاہ حسین اپنے درویشوں کے ساتھ دریائے راوی کے کنارے دن گزارتا تھا ۔اسی راوی نے شاہ حسین کو مادھو عطا کیا ۔راوی کے کنارے آوارگی کرتے ہوئے ایک دن ہندو لونڈے مادھو پر نظر پڑی تو وہ صورت دل میں گھر کر گئی ۔مادھو کا دل موم ہوا گھر بار چھوڑ کر شاہ حسین کا ہو لیا ۔وہ دن اور آج کا دن مادھو بھی شہر لاہور کا اک اہم کردار بن گیا ۔مجھے کچھ دانشوروں کی رائے پر حیرت ہوتی ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ مادھو لال کا قصہ من گھڑت ہے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ شاہ حسین کی شخصیت کو مادھو سے جوڑ کر مسخ کیا گیا ہے ۔میری نظر میں جو سرمستی اور سرشاری مادھو کی قربت نے شاہ حسین کو عطا کی تھی وہ ناقابل بیاں ہے۔شاہ حسین کے پاکیزہ سینے میں جب محبت کا نخل پلا بڑا تو اس کو آتش وافر مادھو کے عشق نے عطا کی ۔یہ عشق پھر الاؤ بن کر بھڑکا جس سے شہر لاہور کے گلی کوچے روشن ہوئے ۔شاہ حسین نے اسی کیف و مستی کو پنجابی کافیوں کا پیرہن عطا کیا ۔یہی وہ محبت تھی جس نے شاہ حسین کو پنجابی کافی کا موجد بنا دیا ۔شاہ حسین کی زندگی سے مادھو نکال دیں توباقی کیا بچے گا ۔موجودہ دور میں کچھ دوست یہ سوچتے ہیں کہ شاہ حسین کی شخصیت کو مادھو نے گہنا دیا ۔ایسی بات ہرگز نہیں ہے ۔شاہ حسین ہر دور میں شاہ ہی رہا ۔یہ ایسا لاہوری کردار ہے جس کی مثل و مثال نہیں ملتی ۔اس کی زندگی شہر لاہور کی فضا اور ماحول کی عکاسی کرتی ہے ۔شاہ حسین کے خلاف اس دور کے کچھ لوگوں نے اکبر بادشاہ کو شکایت کی ہے یہ شراب پی کر اپنے ملنگوں کے ہمراہ رقص کرتا ہے ۔شاہ حسین کو اکبر نے اپنے پاس بلایا تو ان کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی ۔اکبر کے مصاحبین خوش تھے کہ آج تو شاہ حسین مغل بادشاہ اکبر کے ہاتھوں بچ نہیں پائے گا ۔شاہ حسین سے بادشاہ اکبر نے پوچھا آپ کے ہاتھ میں کیا ہے فقیر نے جواب دیا آپ خود دیکھ لیں ۔بادشاہ اکبر نے ماہرین کو اس بوتل کا معائنہ کرنے کا کہا تو وہ سرکہ نکلا ۔جس پر بادشاہ اکبر شاہ حسین سے معذرت کی اور ان کے مخالفین کو سخت سست کہا ۔شاہ حسین لاہوری نے بادشاہ اکبر کے خلاف مزاحمت کرنے والے دلا بھٹی کو اپنے پاس پناہ دی تھی ۔بعض مورخین نے اس بات کو نقل کیا ہے کہ دلا بھٹی کو جب اکبر بادشاہ نے پھانسی دے کر قتل کر دیا تو اس کا جنازہ بھی شاہ حسین لاہوری نے ہی پڑھایا تھا ۔
شاہ حسین کی مشہور چلہ گاہ حضرت شاہ صدر الدین حضوری مقبرہ اور مسجد کے مغرب میں واقع ہے ۔صدر الدین حضرت بہلول دریائی کے خلفیہ تھے ۔اب یہ جگہ مسجد زکریا خاں اور مسجد موراں کے درمیان ہے ۔
مسجد زکریا مغرب میں چلہ گاہ تھی اور کھڑکی مادھول لال مسجد کے مشرق میں تھی ۔مسجد زکریا کے سامنے چلہ گاہ مادھو لال بھی تھی ۔اس جگہ حضرت رنگ بلاول قادری نے مسجد مادھو بھی تعمیر کروائی تھی ۔
شاہ حسین کے درویشوں میں چار کا عدد بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ان کے چار غریب درویش تھے جو پہلے سے چار تک مشہور تھے ۔ان کے چار دیوان مشہور تھے ۔دیوان مادھو ،دیوان گورکھ ،دیوقن بخش اور دیوان اللہ دیواں ۔ان کے چار خاکی ملنگ معروف تھے جن میں خاکی مولا بخش ،دوسرا خاکی شاہ ،تیسرا خاکی شاہ اور خاکی حیدر شاہ ۔ان کے چار بلاول تھے ۔بلاول شاہ رنگ ،بلاول بدھو ،تیسرس بلاول شاہ اور چوتھا بلاول شاہ ۔
شاہ حسین لاہوری جب شہر لاہور کے گلی کوچوں میں آوارہ گردی کرتا تھا وہ دور مغل بادشاہوں کا تھا ۔دراشکوہ نے اپنی کتاب شطحیات میں لکھا کہ مغل شہزادیاں آپ کی روحانی عظمت کی قائل تھیں اور آپ کا بے حد احترام کرتی تھیں ۔اکبر بادشاہ اور شہزادہ سلیم کے حرم میں شامل خواتین بھی شاہ حسین کی عقیدت مند تھیں ۔
مغلیہ بادشاہوں میں جو بھی لاہور آتا وہ شاہ حسین کی درگاہ پر ضرور حاضری دیتا تھا ۔نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے متعلق بھی ہے کہ جب وہ لاہور آئے تو شاہ حسین کی درگاہ پر حاضر ہوتے تھے ۔مغلیہ دور میں لاہور کے گورنرز شاہ حسین کی درگاہ سے عقیدت رکھتے تھے ۔نواب ذکریا خان نے شاہ حسین کی درگاہ پر مسجد بنوائی ۔
مغل بادشاہ جہانگیر کو جب خبر ملی کہ اک فقیر اور درویش ہر وقت ھو ھو کی سرمستی میں مست الست ہے ۔
اس کا دل چاہا کہ شاہ حسین سے ملاقات کی جائے ۔اس نے کئی بار پیغام بھیجا مگر باطن کی دنیا کے بادشاہ شاہ حسین نے اس کے پاس جانا مناسب نہ سمجھا ۔ایک دن شاہ حسین دریائے راوی کی طرف جانے کے لیے شاہی قلعے کے سامنے سے گزر رہے تھے ۔مغل بادشاہ شاہ جہاں کو دربانوں نے اطلاع دی تو اس نے کمند ڈال کر شاہ حسین کو قلعہ کے اندر لانے کا حکم دیا ۔جب شاہ حسین بادشاہ جہانگیر کے سامنے پہنچا تو آپ نے کہا مجھے کیوں بلوایا گیا ہے ۔جہانگیر نے کہا اک بات بتاؤ تمہیں رب کیسے ملا ۔شاہ حسین لاہوری ہنس پڑے اور کہا جیسے تمہیں میں ملا ہوں ۔رب کائنات جس کو ملنا چاہتا ہے ایسے ہی کمند ڈال کر اپنے پاس بلا لیتا ہے ۔یہ جواب دیکر فقیر قلعہ سے نیچے اتر آیا ۔جہانگیر نے اک شخص کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ شاہ حسین کا چپکے سے پیچھا کرتے رہے اور اس کی حرکات کو قلمبند کرے ۔اس شخص نے ایسا ہی کیا اور بعد ازیں اس شخص کے مرتب کردہ شاہ حسین کے احوال کتابی شکل میں شائع بھی ہوئے۔
ہماری بھی عجب کہانی ہے ۔ہم آوارہ گرد ہیں اور شہر لاہور ہمارا عشق ہے ۔
مجھے شاہ حسین کی ہمسائیگی کا شرف حاصل ہے ۔گورنمنٹ شالیمار کالج باغباں پورہ لاہور شاہ حسین کی نگری میں ہے ۔میں شاہ حسین کی بارگاہ میں حاضر ہوتا رہتا ہوں ۔شاہ حسین کی اک کٹیاشاہدرہ میں ہے ۔
وہ جگہ شاہ حسین کا تکیہ کہلاتی ہے۔تکیہ شاہ حسین فقیر کی بیٹھک تھی ۔شاہ حسین لاہور ی اپنے ملنگوں کے ہمراہ اس جگہ بیٹھتا تھا ۔
جب میں نے شاہ حسین کے تکیہ پر حاضری دی تو مجھے یوں لگا کہ جیسے شہر بے مثال میں مٹر گشت کرنے والوں کا سرخیل مادھو لال حسین ہی ہے ۔ مجھے تو اس جگہ لطافتوں کااک جہاں نظر آیا ۔سرمست درویش رقص کرتے دکھائی دئیے ۔کیف و سرور کا ساز سنائی دیا ۔مادھو لال کا نغمہ محبت کانوں میں رس گھولتا رہا ۔شاہ حسین اور اس کے فقیروں کی صدائیں مجھے ہر سو سنائی دیتی رہیں ۔
لاہور کا حقیقی رنگ اور لاہور و پنجاب کی محبت میں مست ا لست فقیر شاہ حسین کا اپنا ہی انداز تھا ۔شہر لاہور میلے ٹھیلوں کے حوالے سے مشہور ہے ۔شاہ حسین کا میلہ چراغاں اس ضمن میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔
شالامار باغ سے دلی دروازے تک چراغاں ہوتی تھی ۔
لاہور میں میلہ چراغاں بہار کا استقبال کرتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی بسنت بھی منائی جاتی تھی جو اب قصہ ماضی بن چکی ۔میلہ چراغاں کا جوبن وہ نہیں رہا جو گزشتہ دہائیوں میں تھا مگر اس کی بچی کچھی رعنائیاں انسان کو آج بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں ۔شاہ حسین لاہوری نے ساری زندگی ظاہری شریعت کی پروا نہیں کی ۔شاہ حسین اپنی باطنی ہشاشت کی سوغات کو لاہور کے کوچے کوچے میں تقسیم کرتے رہے ۔ان کا مذہب انسان سے پیار تھا اور خود اپنے پیار کو یوں دوام دیا کہ مادھو لال حسین کہلائے ۔ شہر لاہور کے گلی کوچوں میں پیار کے نغمہ گاتے تھے ۔دلی دروازے کے مدرسے کے سبق کو چھوڑ کر اٹھا ہوا یہ طالب علم باطنی دنیا کا مسافر بنا ۔اس نے اپنی پنجابی کافیوں کے ذریعے اپنی سر مستی کا اظہار کیا ہے ۔شاہ حسین پنجابی شاعری کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔شاہ حسین کی شاعری وجودی فکر کی عکاس ہے ۔
ان کی کافیاں زندگی کی حقیقتوں سے بھرپور ہیں ۔
مائی نی میں کینوں اکھاں
درد وچھوڑے دا حال
شاہ حسین فقیر تھا ۔مجذوب تھا ۔شہر لاہور کا عاشق تھا ۔مغل بادشاہوں سے دور رہ کر اپنی کٹیا آباد رکھتا تھا ۔وحدت الوجود کے رنگ میں یوں رنگے ہوئے تھے کہ ہر سو ہو ہی ہو دکھائی دینے لگا ۔شاہ جہاں ملنے کے لیے بے تاب رہتا ۔حسو تلی کو حساب کتاب کی دنیا سے نکال کر معرفت کی راہوں کا مسافر بنا دیا ۔مجھے یوں لگتا ہے کہ آج بھی شاہ حسین اور اس کے ملنگوں کے ڈھول اور پاؤں میں پہنے گھنگرؤں کی آوازیں شہر لاہور کے گلی کوچوں میں رنگ بکھیر رہی ہیں ۔انسانوں سے پیار کرنے والا شاہ حسین سب کا محبوب تھا ۔ہندو ،سکھ ،عیسائی اور مسلمان سب ہی میلہ چراغاں کو اپنا سمجھتے تھے ۔رند مزاج شاہ حسین کی خیر ہو ۔اس کی درگاہ پر رقص کرنے والے ملنگوں کو سلام پہنچے ۔اس کی دہلیز پر ہونے والی چراغاں کا دھواں پورے خطے کو اپنی الفت و محبت کی چادر میں سمو لے اور محبت کا چلن عام ہو ۔ہائے کاش انسان جیت جائے ۔پیار کو دوام ملے ۔نفرتوں کا کاروبار ختم ہو ۔اس دھرتی کی خوشبو سے پھر ہر کوئی تازگی محسوس کرے ۔شہر لاہور کے میلے ٹھیلے آباد رہیں ۔ہر سو امن کے دیپ جلیں ۔
رنجیت سنگھ میلہ چراغاں کا دلدادہ تھا ۔شاہ حسین کے میلے کا اہتمام اپنی نگرانی میں کرواتا ہوتا تھا ۔اکثر چوراہے میں بیٹھ کر میلے کے شرکاء کو خوش آمدید کہتا تھا ۔رنجیت سنگھ شاہ حسین کی بارگاہ میں حاضری دیتا تھا ۔رنجیت سنگھ نے شاہ حسین کے مزار اور سالانہ عرس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دو بائیس بیگھے اراضی مختلف علاقوں سے وقف کررکھی تھی ۔
یہ میلہ بسنت ،بہار ،رنگوں ،خوشبووں اور رندوں کے ساتھ جڑا ہوا تھا ۔اس میلے کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ فقیر سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔ہندو ،سکھ اور مسلمان محبت کے گیت گاتے اس میں شریک ہوتے تھے ۔
کبھی کبھار میرے من میں لاہور کے جوگی کی صدا سنائی دینے لگی ۔ بے اختیار جی چاہا کہ مجھے کوئی فقیر بلا رہا ہے۔کافیوں کی آواز کانوں میں آ رہی ہے ۔ڈھول کی تھاپ مدہور کر رہی ہے ۔تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے مادھولال حسین کے پاس پہنچ جاتا ہوں ۔ تازگی ، سوز اور مستی کے جھونکے میرا استقبال کر تے ہیں ۔عجب سی سرشاری اور مستی ان کے مزار کے گرد ڈیرے جمائے نظر آتی ہے۔درگاہ کے احاطے میں حسن انتظام اور صفائی بھی دیدنی ہوتی ہے ۔اک مخصوص ماحول اور سر مستی کی فضاوں میں تاریخ کے اوراق آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں ۔شاہ حسین کا مزاحمتی کردار ہمیں ہمیشہ ہی حوصلہ عطا کرتا ہے ۔شاہ حسین مزاحمت کا استعارہ ہیں اور صوفیا کے مزاحمتی طبقے کے سرخیل ہیں ۔
شاہ حسین کا اپنے مرید مادھو کے ساتھ دریائے راوی کے کنارے بیٹھے رہنا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ملامتی رندوں کا سردار بننے کے لیے اس کو کئی فتووں کی زد میں آنا پڑا ۔شاہدرہ کے گلی کوچوں میں آج بھی اس فقیر کے نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے ۔اس کے پنجابی اشعار میں وجودی فکر کے پرتو اور ملنگوں کا والہانہ رقص آنکھوں میں گھومتا ہے ۔کتنے ہی حسین دن ہوں گے جب پنجاب بھر کے کسان گندم کی کٹائی کر کے میلہ چراغاں میں اس خدا مست درویش کی چوکھٹ کو چومنے آتے تھے۔انسانوں کے اس ہجوم میں مذہب کی بھی تفریق نہیں تھی ۔لاہور اور پنجاب کی تہذیب و تاریخ اس فقیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ محبت اور انسان دوستی اس کی شاعری کا حقیقی موضوع ہے ۔
ملنگ آلتی پالتی مارے بیٹھے شاہ حسین کے پاس بیٹھے رہتے ہیں ۔ شاہ حسین کی بارگاہ میں ان کی حاضری کو اس وقت قبولیت کی سند ملتی ہے جب ان کے دامن میں لنگر بھی آ پہنچاتا ہے ۔ اداسی رفو چکر ہو جاتی ہے ۔روح اور دل پر پوری طرح مستی طاری ہوتی ہے ۔
میں جب بھی شاہ حسین کو ملنے جاتا ہوں تو دل تو چاہتا تھا کہ خانقاہ کے چراغوں کے اٹھنے والے دھویں سے دل بہلاتے رہیں۔درگاہ میں بیٹھے ملنگوں کےساتھ ملکر شاہ حسین کی کافیاں گاتے رہیں۔زندگی کی رفتار تھم جائے اور انسانیت کی بات بناتے رہیں مگر غم دوراں برا ہو تیرا آخر کار تیری وجہ سے اٹھنا پڑتا ہے ۔ درگاہ کے ہر کونے کی خوشبو سے حظ اٹھاتے ہیں ۔
آوارگی کے شوقین آوارہ گرد کو اک درویش اور خدا مست کی نگاہ محبت نے وہ سرشاری عطا کی جس کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں۔
۔ہندوستان کی سرزمین بھی کتنی قابل رشک ہے یہاں پر خدا تعالی کے خاص ملنگوں کا راج آج بھی قائم ہے ۔چار سو سال سے شاہ حسین کی حقیقی بادشاہت قائم ہے ۔
خدا تعالی ان درویشوں کی خیر کرے جن کی درگاہیں آج بھی دنیا کے ستائے ہوئے لوگوں کو اپنے دامن میں پناہ دیتی ہیں۔
آپ کمینہ تیری عقل کمینی کون کہے تو دانا
انہیں راہیں جاندے ڈھڑے میر ملک سلطاناں
آپ مارے تے آپ جواے عزرائیل بہانا
کہے حسین فقیر سائیں دا بن مصلحت اٹھ جانا
لاہور کے سر مست دوریش جن کے دامن میں آج بھی بہار کا سماں ہے ۔شاہ حسین نے 1599ءمیں وفات پائی اور آپ کو دریائے راوی کے کنارے شاہدرہ میں دفن کیا گیا ۔کچھ عرصے بعد راوی کے پانی نے قبر تک پہنچنے کی کوشش کی تو ان کو باغبانپورہ میں دفن کیا گیا ۔ان کا مقبرہ دہلی معز الدین نے بنوایا تھا ۔
ان کی وفات کے بعد کے مادھو لال نے درگاہ کا انتظام و انصرام سنبھالا ۔شہر لاہور سے عشق کی وجہ سے شاہ حسین کو فقیر لاہور بھی کہا جاتا ہے ۔
ان حسین کے بعد مادھو اڑتالیس سال تک زندہ رہا ۔مادھو کو بھی شاہ حسین کے مزار میں ہی جگہ عطا ہوئی ۔روضہ میں دو ہی قبریں ہیں ایک شاہ حسین دوسری مادھو لال حسین ۔
شاہ حسین کے پہلو میں لیٹاہوا مادھو صدیوں سے وصل یار کی لذتوں سے سرشار ہے ۔اس کی قبر پہ لگا کتبہ بڑا معنی خیز
۔محبوب حق حضرت مادھو لال حسین ۔
شاہ حسین کی ہی کافیوں پر درویش لاہور ،ملنگ لاہور اور فقیر لاہور سے اجازت چاہوں گا
تنہاں نوں غم کیہا سائیں جنہاں دے ول
سوہنی صورت دلبر والی رہی اکھیں وچ گل
اک پل سجن جدا نہ تھیوے بیٹھا اندر مل
کہے حسین فقیر سائیں دا چلنا اج کہ کل
۔۔۔
اک دوئے ۔تن چار پنج چھے ست اسیں آٹھ نوں
چرخہ جائے سبھے گھر گئیاں ۔رہی اکیلی اک ہو
جیہا ریجا ٹھوک وفا ئیو سیتہی چادر تان کے سوں
کہے حسین فقیر سائیں دا آئے لگی ہن چھک پون
ربا میرے حال دا محرم توں
اندر توں ہیں، باھر توں ہیں، رُوم رُوم وِچ تُوں
تُوں ہیں تانا، تُوں ہیں بانا، سبھ کجھ میرا تُوں
کہے حسین فقیر نماناں، میں ناہیں سب تُوں