گیت ہوں، تو گا مجھے!

گیت ہوں، تو گا مجھے! غم ہوں گر، اُٹھا مجھے!
حاصلِ مُراد ہوں ، ایسے مت گنوا مجھے

کل تِری نگاہ میں نور کا الاؤ تھی
آج مثلِ خاک ہوں، راکھ ہوں، بہا مجھے

ڈُوب اپنے حال میں، کچھ نہیں ملال میں
دھیان سے ہٹا مجھے، شان سے گِرا مجھے

تیرے ہاتھ کا لکھا حرفِ ناتمام ہوں
چاہے تو تمام کر، خواہ تُو مٹا مجھے

عشق لکھ کے یار نے میرے نَم خمیر پر
نقش نقش پڑھ لیا اور دَھر دیا مجھے

عشق تھا طلب تِری تجھ کو میں عطا ہوئی
اِک دُعا کے نام پر قید کر لیا مجھے!

تُو مِرا خدا نہ تھا، کوئی دیوتا نہ تھا
جانے تیرا حرف حرف حکم کیوں لگا مجھے

روشنی سراب ہے, رنگ کُل عذاب ہے
جی بہت خراب ہے، شعر مت سُنا مجھے

تُو نہیں رہا مگر، ریگزارِ دل پہ کیوں
دم بدم ملا کیے، تیرے نقشِ پا مجھے

(سیماب ظفر)

اپنا تبصرہ بھیجیں