عزیزان گرامی یہ وہ ایام ہیں جب اسیروں کا قافلہ مدینہ واپس پہنچا۔ اس حوالے سے ہمیں دقیق تاریخ نہیں ملتی لیکن یہ بات قوی گمان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ صفر کی آخر یا ربیع الاوّل کے شروع کے ایّام ہوں گے۔
بشیر بن جذلم کہتے ہیں کہ جب قافلہ مدینہ پہنچنے لگا تو ہم آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ امام زین العابدین(ع) نے حکم دیا کہ تمام لوگ اپنی سواریوں سے اتریں اور وہاں خیمے لگائیں۔ امام نے بشیر سے پوچھا کہ تمہارے والد پر اللہ کی رحمت ہو، اچھے شاعر تھے، کیا تم بھی شعر کہہ سکتے ہو؟
بشیر نے کہا یا ابن رسول اللہ میں بھی شاعر ہوں۔ امام نے کہا کہ پھر تم مدینہ داخل ہو جاؤ اور لوگوں کو ہمارے آنے کی خبر دو۔
بشیر کہتا ہے کہ میں اپنے مرکب پر سوار ہو کہ مسجد نبوی پہنچا اور گریہ کرتے ہوئے لوگوں کو آواز دی؛
یا اَهْلَ یَثْرِبَ لا مُقامَ لَکُمْ بِها
قُتِلَ الْحُسَیْنُ فَاَدْمُعی مِدْرارُ
اَلْجِسْمُ مِنْهُ بِکَرْبَلاءَ مُضَرَّجٌ
وَالرَّاسُ مِنْهُ عَلَى الْقَناهِ یُدارُ
“اے یثرب کے لوگوں، اب مدینہ تمہارے رہنے کی جگہ نہ رہی، کیونکہ حسین(ع) مارے گئے، میری آنکھیں اس طرح گریہ کناں ہیں۔ ان کا جسم کربلا میں خوک و خون میں غلطاں ہوا، اور ان کے سر کو شہر بہ شہر، کوچہ بہ کوچہ پھرایا گیا۔”
پھر کہا کہ علی ابن حسین(ع) اپنی پھوپھیوں اور بہنوں کے ساتھ مدینہ کے باہر موجود ہیں۔ یہ سن کر اہل مدینہ گھروں سے نکلے، چہرے پر طمانچے مارتے ہوئے فریاد کرنے لگے۔ بشیر کہتا ہے
فَلَمْ ارَ باکِیاً وَلا باکِیَهً اکْثَرَ مِنْ ذلِکَ الْیَوْمِ، وَلا یَوْماً اَمَرَّ عَلَى الْمُسْلِمینَ مِنْهُ بَعْدَ وَفاهِ رَسُولِ اللهِ
کہ میں نے اس سے بڑھ کر مصیبت کا دن نہیں دیکھا، رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد اس سے زیادہ سخت دن (اہل مدینہ) نے نہ دیکھا تھا۔
لوگ اسی حالت میں مدینہ سے باہر گئے، لوگوں کا ایک سیلاب تھا جو رواں دواں تھا، میں اپنی سواری سے اتر کر چلنے لگا اور بمشکل خیموں تک پہنچا۔ امام زین العابدین(ع) خیمے سے نکلے، ان کے ہاتھ میں ایک رومال تھا جس سے وہ آنسو پونچھتے جاتے، لیکن چہرے پر آنسو سیل رواں کی طرح بہتے جاتے۔ لوگ یہ دیکھ کر مزید گریہ کرنے لگے۔ لوگ آتے رہے اور آپ کو تسلیت کہتے رہے۔
آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں شہادت عظمی اور مظالم کا ذکر تھا۔ اس کے بعد آپ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرت زینب بنت علی(ع) رسولخدا(ص) کے مرقد مبارک کی طرف گئیں اور فرمانے لگیں؛
یا جَدّاه اِنّی ناعِیهٌ اِلَیْکَ اخِی الْحُسَیْنَ
“اے میرے نانا میں آپ کے پاس حسین(ع) کی مظلومانہ شہادت کی خبر لائی ہوں۔”
آپ روتی جاتی تھیں اور جب بھی امام زین العابدین(ع) کو دیکھتیں آپ کے گریہ میں شدت آ جاتی۔
اس موقع پر جناب ام کلثوم سلام اللہ علیھا نے کچھ اشعار کہے جن میں سے چند کا ترجمہ حاضر خدمت ہے؛
مدينة جدنا لا تقبلينا فبالحسرات و الاحزان جئنا
(اے ہمارے نانا کا شہر ہمیں قبول نہ کرنا، ہم حسرتوں اور حزن و ملال کے ساتھ آگئے ہیں)
خرجنا منك بالاهلين جمعا رجعنا لا رجال و لا بنينا
(ہم تمہیں چھوڑ کر نکل گئے تھے پورے کنبے کے ساتھ، لیکن مردوں اور لڑکوں کے بغیر لوٹ آئے ہیں)
الا يا جدنا قتلوا حسينا ولا يرعوا جناب الله فينا
(اے ہمارے نانا انہوں نے قتل کیا حسین ع کو، اور ہمارے متعلق آپ کی اللہ کے نزدیک کرامت کی رعایت نہ کی)
لقد هتكوا النساء و حملوها على الاقتاب مهرا اجمعينا
(انہوں نے خواتین کی توہین کی اور اونٹوں کے پالانوں پر سب کو ایک ساتھ چڑھایا)
و هذي قصتي مع شرح حالي الا يا سامعون ابكوا علينا
(اور یہ ہے میری حکایت، میرے حالات کی تفصیل کے ساتھ، اے سننے والو ہم پر گریہ کرو)
(مقتل الحسین مقرم، ص 376، بحارالانوار ج45 ص198)