موضوع کی حساسیت کے پیش نظر آغاز ہی میں وضاحت کی جاتی ہے کہ عرب اسرائیل تعلقات اور پاکستان کی ترجیحات ایک ایسا نازک اور حساس موضوع ہے جس پر بحث کرنا وقت کی ضرورت اور ترجیح بن چکا ہے۔ آج نہیں تو کل ہمیں اس کڑے امتحان سے ہر صورت گزرنا ہی پڑے گا۔ قبل اس کے کہ پانی پلوں کے نیچے سے بہہ جائے اور ہم دنیا بھر میں بالکل تنہا کھڑے ہوں اور کوئی بھی دوست یا دشمن ملک ہم سے راہ و رسم بڑھانے کو ترجیح نہ دے۔ بہتریہی ہے کہ جو دن کل دیکھنا ہے اس مسئلے کا آج ہی حل تلاش کرکے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا جائے کہ جب ہمارے عرب دوست اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے اور آزادانہ سفارتی، تجارتی، ثقافتی و سیاحتی تعلقات کو آگے بڑھائیں گے تو ہم کیا کریں گے؟ ملکوں کی تاریخ میں کٹھن مراحل آتےہیں اور تدبر سے چلے جاتے ہیں۔ ہم ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو اسرائیل اور کشمیر کو بھارت کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اسی سوچ کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کو دنیا بھر کے مسائل کے ساتھ نتھی کرکے ہر مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہ آگے بڑھتے ہیں نہ پیچھے ہٹتے ہیں لیکن آج وہ کٹھن مرحلہ سر پر آن پہنچا ہے کہ جب ہمیں ان دونوں مسائل کو بھارت اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی صورت حل کرکے کسی حتمی رائے پر پہنچ کر کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا ہوگا کہ جس سے ہمارے عرب دوست بھی مطمئن ہوں اور تنازعات کا ایک پُرامن اوردیرپا حل بھی نکل سکے۔ آج نہیں تو کل سعودی عرب، اسرائیل سفارتی تعلقات پورے جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھنے والے ہیں ۔دنیا سعودی عرب ، اسرائیل تعلقات کو اسلامی و مغربی دنیا کے اتحاد و دیرپا امن کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ ہم ہیں کہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپا رہے کہ ہم نے’’امن و تباہی‘‘میں سے کس کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے دورہ امریکہ و اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ، عالمی فورمز و میڈیا کے ساتھ ہونے والی گفتگو، بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے وضاحتی بیانات کا کھلے دل سے تجزیہ کریں تو یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ جب نگران وزیراعظم اقوام متحدہ کے فورم پر کھڑے ہو کر چین پاکستان تعلقات کو امریکہ اسرائیل سے تشبیہ دیتے ہیں تووہ دراصل ڈرتے ڈرتے پاکستانی سیاست دانوں اور عوام کو مستقبل میں عرب دنیا میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں بارے اشارتاً پالیسی سازوں اور اثر انداز ہونے والی تمام مذہبی و سیاسی قوتوں کو اسرائیل سے تعلقات کے موضوع پر بحث اور مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں لیکن کچھ سیاسی موقع پرست اسے بھی ملک دشمنی قرار دینا چاہتے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب اسرائیل سے تعلقات کی بنیاد پر ہماری سیاسی و غیر سیاسی حکومت، اسٹیبلشمنٹ پر انتہائی دباؤ بڑھے گا اور ہمیں کسی نہ کسی صورت ایک حتمی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم عرب دوستوں کی محبت یا دباؤ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرکے دنیا کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں یا پھر صرف پاکستان اور ایران ہی تنہا اسرائیل کے خلاف کھڑے دنیا کا دباؤ برداشت کرتے رہیں گے۔ آخر کب تک؟ یہ فیصلہ تو چندہفتوں یا ممکنہ طور پر چند ماہ میں کرنا ہی پڑے گا، بہتر یہی ہے کہ اس نازک موضوع پر دنگا فساد، سیاسی ہنگامہ آرائی اور نفع نقصان سے آگے بڑھ کر کھلے دل سے آج ہی بحث شروع کر دیں اور ایک قومی اتفاق رائے اور حکمت عملی طے کرلی جائے ، ایسا نہ ہو کہ دم توڑتی معیشت، بڑھتی دہشت گردی، ناکام سفارت کاری کے نتیجے میں ہم کسی ایسے بہت بڑے عالمی دباؤ کا شکار ہو جائیں کہ اِدھر کے رہیں نہ اُدھر کے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ عرب اسرائیل تعلقات میں آزادفلسطین ریاست زیر بحث ضرور ہے لیکن ترجیح نہیں۔ سعودی عرب اسرائیل کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات کے تاریخی اعلان کے موقع پر فلسطینی ریاست بارے کیا رائے سامنے آتی ہے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ مرحلہ ہمارے سر پر آن پہنچا اور ہمیں عالمی خصوصاً عرب دوستوں کے دباؤ پر اسرائیل کے ساتھ محدود یا لامحدود تعلقات قائم کرنے کی کڑوی گولی نگلناپڑی تو ہماری ترجیحات کیا ہوں گی؟ کچھ مہربان سعودی عرب کی متوقع35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری یا امدادی پیکیج کو پاک اسرائیل تعلقات کا ابتدائیہ قرار دیتے ہیں۔ کچھ کی رائے ہے کہ یہ کام نگران حکومت کی طوالت سے جڑا ہے۔ یہ بوجھ کوئی سیاسی جماعت اٹھانے کو تیار نہیں۔ یہ بھی تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ کٹھن مرحلہ مستقبل کی منتخب حکومت کے گلے میں ڈال کر ایسا ڈھول بجایا جائے کہ رب کی پناہ! آپشنز نازک اورمحدود ہیں، کسی بڑے امتحان سے قبل یہ ضرور سوچنا ہوگاکہ اس مسئلے کا ایک باعزت حل ہے ، دوسرا حل نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ بحث کو آگے بڑھانے کیلئے مسئلہ کشمیر پر ہماری فوری ترجیح مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ ایک ایسا امن معاہدہ بھی ہونا چاہئے کہ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضا قائم ہو اور بھارتی دہشت گردوں کی پاکستان آمد کا راستہ روکا جاسکے۔ کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ ایک ایسا علاقہ مخصوص کیا جائے جہاں آرپارکشمیری خاندان بآسانی روزانہ کی بنیاد پر بلااجازت ملاقاتیں کرسکیں۔مل بیٹھ کر کھانا کھائیں اور شام کو گھر واپس چلے جائیں۔ معیشت کے استحکام کے حوالے سے پاکستان پر عالمی قرضوں کا بڑھتا دباؤ کم یا قرضے معاف کروانے اور معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔ یہ میری رائے ہے ضروری نہیں کہ آپ بھی اس سے اتفاق کریں ۔
