tariqkhan tareen

ریکوڈک منصوبہ روشن بلوچستان کی ضمانت

اللہ تعالٰی کا فضل عظیم ہے کہ جس نے ہمارے ملک پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالا مال رکھا ہیں۔ محل وقوع، جغرافیائی لحاظ سے، معدنیات اور چار موسموں نے اللہ کی قدرت کو مزید نکھارا ہے۔ سیاحت، زراعت سے لیکر صنعت و حرفت تجارت اور معیشت کے توانا اشارے کہ جن سے پاکستان نے ترقی پذیر ہونے سے ترقیافتہ ملک بننے کی طرف گامزن ہونا ہے کے لئے ضروری کہ ہم اپنے آپ کو انفرادیت کو خول سے نکال کر اجتماعیت راغب ہو۔ ہم بطور انسان شاید کہ دنیا کی نظر میں بہت چھوٹے ہو مگر ان وسائل کو دیکھتے ہوئے ہم دنیا کے سامنے ایک اہم مقام رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہے کہ جن کی وجہ سے دنیا کے اقوام ہمارے ساتھ ربط و تعلق میں مجبور ہیں۔ قدرتی معدنیات کی وافر مقدار کا پاکستان میں موجود ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ آج بھی اگر ہم اپنی روش و عادات سے جان نہیں چھڑاتے تو وہ جو ترقی کے خواب ہم نے بھنے ہیں، انکی تعبیر تدبیر سے محروم ہوکر رہینگے۔

پاکستان کے اہم معدنیات میں سونا، تانبا، کوئلہ، نمک، جپسم، خام لوہا، کرومائیٹ، تانبا، سنگ مرمر، قیمتی پتھر، گیس اور خام تیل شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ایسے معدنی ذخائر موجود ہیں جو کہ ابھی تک دریافت نہیں کئے جا سکے۔ ہم ٹیکنالوجی کے ان سیڑھیوں تک آج بھی نہیں پہنچے کہ جس سے مزید معدنیات کی دریافت کیا جاسکے نہ صرف بلکہ ان معدنیات کے زخیرے کا تعین بھی کیا جاسکے۔بلوچستان میں تیل و گیس کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہونے کے شواہد پائے گئے ہیں۔ مگر یہ تو بیرونی ممالک کی مہربانی ہے کہ جنہوں نے صوبہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے پہاڑ دریافت کئے۔ اگرچہ یہ معدنی وسائل اقتصادی اور صنعتی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں تاہم بنیادی منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے اب تک اس چھپے خزانے سے اس طرح سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا جو ملک کو اس کی اصل اور تیز ترین اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جانے میں مددگار ثابت ہو۔ یہ ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے پاکستان میں موجود معدنیات و قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔

میں ذاتی طور پر اس بات کا ادراک بڑی گہرائی کے ساتھ رکھتا ہوں کہ وہ ممالک جو ترقی کرچکے ہے اور وہ ممالک جو ابھی تک ترقی پذیر رہ کر بھی اپنے اپ کو اس دلدل نما زندگی سے نہیں نکالتے، کے لئے ضروری ہے کہ ترقی کے لئے اجتماعیت کو فروغ دے اور انفرادیت جیسی مادہ پرستی کو پروان چڑھانے سے روکا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ترقیافتہ ممالک اخر کیونکر ترقی کر گئے اور ہم ترقی کرنے کے بجائے تنزلی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ اس کا جواب بہت ہی سادہ ہے کہ کہ ترقیافتہ ممالک نے ایک فلسفہ اپنایا ہے اور یہ کہ چاہیے کتنے ہی مسائل ہو انکے حل کے کئے اللہ تعالٰی نے انہیں وسائل دے رکھے ہے۔ وسائل کو انہوں نے مسائل کے حل کیلئے مختص کر کے ترقی کی راہیں طے کرلی ہے۔ یعنی وہ “وسائل برائے مسائل” کا فلسفہ رکھتے ہے۔ اور ہم پھیچے اس لئے رہ گئے کہ ہم نے “مسائل برائے وسائل” کا وطیرہ بنایا ہوا ہے۔ ہمارے لئے جہاں کہیں سے وسائل کبھی قدرت کی شکل میں تو کبھی کسی اور شکل میں ہمیں مل جائے تو عدم مساوات کی شکل میں اللہ کی پناہ لیتے ہوئے سوچتے ہے کہ اب ان وسائل پر جانے کسطرح کی سیاست ہوگی، کتنے لوگ شدت پسندی دہشتگردی کے بھینٹ چڑھے ینگے۔ یعنی ہمارا فلسفہ ترقیافتہ ممالک سے ایک دم مختلف ہے، یہاں سیاست دان ضروری، سیاسی لیڈران ضروری، سیاسی منشور ضروری اور سیاسی جھنڈا ضروری ہوا کرتا ہے جسکی بنیاد پر عوام کو مراعات ملنے کے بجائے ان ایک گروہ تک محدود ہوکر رہ جاتے ہے۔ آپ دیکھ لے عوام غریب سے غریب جبکہ سیاستدان امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہے۔ اسی کمزوری کو دیکھتے ہوئے پاکستان مخالف ممالک یہاں کے غریبوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں دہشتگردانہ کاروائیاں کرتے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب اپ معاشی طور پر کمزور ہونگے تو دیگر ممالک کے ساتھ اپ کی خارجہ پالیسی کمپرومائز ہوتی ہے اور آپ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہ پاتے۔

حال ہی میں پچھلی حکومت نے سپیشل انویسٹمنت فیسیلٹیشن کاونسل (SIFC) کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس کا مقصد دوست ممالک قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے سے سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اور آرمی چیف پر مشتمل ہے اور اس نے کچھ مقاصد طے کیے ہیں، کاروبار کرنے کی لاگت کو کم کرنا،نئے صنعتی کلسٹرز کا قیام، اور پالیسی میں ہم آہنگی حاصل کرنا ہے، تمام تر بیرونی سرمایہ کاری اس کاونسل کے قیام سے پہلے مختلف مسائل کا شکار ہوکر سرمایہ کار اپنے فیصلے سے دستبردار ہوتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی تھی۔ مگر ایس ائی ایف سی کے قیام سے اس بات کا عہد کیا گیا کہ تمام تر بیرونی سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں کو نہ صرف تحفظ فراہم کرنا ہے بلکہ انکے لئے کاروباری اور سازگار ماحول بھی فراہم کرنا ہے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کے تمام تر مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جاسکے۔ ایس ائی ایف سی کے قیام سے اس وقت مختلف ذرائع کا دعوٰی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں 25 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے جار رہیں ہیں۔ اس کے علاوہ قطر بھی زیر بحث ہے کہ وہ بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے خواہشمند ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ SIFC نے اگلے 4 سالوں میں ملک میں سو ارب ڈالرز کی زرمبادلہ کے زخائر کا اعادہ کیا ہے۔ اگر خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بھی سرمایہ کاری کے لئے پاکستان ائے تو یقینا اس سے ملک کی معیشت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کریگا، بے روزگاری کا خاتمہ، غربت پسماندگی جیسے پیغور سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔ ایس ائی ایف سی کو اگر مزید گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو اس کے بننے سے پہلے بہت سارے مسائل سامنے رکھے گئے آرمی چیف کے سامنے، جس پر آرمی چیف نے موقع پر ہی ہدایات جاری کی کہ بیرونی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک ادارہ قائم کیا جائے، جس کے بعد پرائم منسٹر آفس میں اس کا دفتر بنایا گیا اور غالبا ایک میجر جنرل اس اس ادارے کو فوجی بنیادوں پر لیڈ کر رہا ہے۔ SIFC اصل میں تمام تر بیرونی سرمایہ کاری کے لئے ایک اداراتی وعدہ ہے، جو کہ سرمایہ کاروں کو انکی سرمایہ کاری پر تحفظ کا وعدہ فرسہم کرتی ہے۔ اللہ کرے کہ ایس ائی ایف سی پاکستان کے لئے ایک نیک شگون ثابت ہوسکے، باقی اس پر تفصیلی کالم پھر کبھی لکھونگا۔

قارئین کرام بلوچستان میں سی پیک کا ایک بہت بڑا منصوبہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لئے زیر تکمیل ہے۔ اس منصوبے کے تحت گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کا افتتاح بہت جلد کیا جائیگا۔ سی پیک کئ تحت صرف گوادر میں دس منصوبے رکھے گئے ہیں جن میں سے کچھ منصوبے مکمل اور باقی زیر تکمیل ہے۔ ان دس منصوبوں کی کل لاگت 1377 عشاریہ 32 ملین ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک تحت ملک میں بجلی کی صلاحیت بڑھانے کے لئے 17045 میگا واٹ بجلی کے پراجیکٹس لگائے گئے جن میں سے 7 عشاریہ 899 ملین ڈالرز کے نو منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔ تکمیل شدہ منصوبے اس وقت ملک کو 5320 میگا واٹ بجلی فراہم کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ 4470 میگا واٹ کے 8 منصوبے جس کی کل لاگت 9549 عشاریہ 927 یو ایس ڈالر ہے بھی تکمیل کی جانب رواں دواں ہے۔ 2544 میگا واٹ بجلی کے منصوبے جن کی کل لاگت 4470 عشاریہ 2 ملین ڈالرز ہے کو مزید زیر پلاننگ رکھے گئے ہیں۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کے تحت نو سپیشل اکنامک زونز بنائے جارہے ہے جن میں سے رشکئی، ایم 3 فیصل آباد اور دھاباجی زونز مکمل ہونے کے قریب ہے۔ باقی سات اکنامک زونز پر جلد کام شروع کیا جائیگا جن میں بوستان انڈسٹریل زون، موقپونڈاس اکنامک زون، ماڈل ائی سی ٹی زون، انڈسٹریل پارک پاکستان سٹیل ملز پورٹ قاسم، میرپور انڈسٹریل زون اور مہمند ماربل سٹی شامل ہے۔ سوشئوں اکنامک ڈویلپمنٹ کے تحت سولر پاور لائٹننگ پراجیکٹ، پاکستان وکیشنل سکولز کی اپگریڈیشن اور تزئین و آرائش، سمارٹ کلاس روم پراجیکٹ، صاف پانی کی سپلائی، ہسپتالوں کے لئے طبی آلات، زراعت کے لئے ضروری ساز و سامان کی فراہمی اور پاکستان چائنا کے باہمی ایگریکلچر لیبارٹریاں اور انکے لئے ساز و سامان کی فراہمی جیسے پراجیکٹس شامل ہے۔ جن سے بہی بڑے پیمانے پر صوبے کے ساتھ ساتھ ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ پاکستان بالخصوص بلوچستان کی عوام چائنا کا خصوصی طور شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستی کا حق ادا کیا ہے۔

سینڈک گولڈ اینڈ کاپر مائن پراجیکٹ بھی بلوچستان کے ضلع چاغی میں ملک کی معیشت کو بہتری کی جانب لیکر چلنے میں اپنا لوہا منوا رہا ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت پچھلے سال ملکی معیشت کو 75 ملین ڈالرز کی کمائی موصول ہوئی۔ منسٹری آف فنانس کے تحت کام کرنے والی کمپنی سینڈک میٹل لمٹیڈ اور چائینیز کمپنی میٹرولوجیکل کنسٹرکشن کمپنی کے مابین مزید 15 سال کا معاہدہ 2021 میں ہوا۔ معاہدے کے تحت ایس ایم ایل کمپنی کے شیئرز 50 فیصد سے بڑھا کر 53 فیصد کر دئے گئے جبکہ صوبے کا حصہ 5 فیصد سے بڑھا کر 5۔6 کر دیا گیا۔ جسکے تحت 10 ملین طلباء کو سکالرشپ دئیے جائیگے۔ ریکوڈک کی اگر بات کی جائے تو یہ منصوبہ بھی پاکستان اور صوبے کی قسمت بدلنے کے لئے اپنی راہیں ہموار کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ریکوڈک کے پہاڑیوں میں کم و بیش 14 ہزار ٹن سونے کے زخائر کے ساتھ ساتھ 1 لاکھ 30 ہزار ٹن تانبے کے زخائر موجود ہے، جنکی مالیت ٹریلین اف ڈالرز میں ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ریکوڈک مائننگ کمپنی بیرک گولڈ کا انٹرنیشنل گریجویٹ پروگرام کے لئے بلوچستان یونیورسٹی کے 9 طلباء کا انتخاب کیا گیا۔ جس سے بلوچستان کے طلباء کو ایک بہترین ایکسپوژر فراہم ہوگا۔ ریکوڈک پاکستان کے لیے انتہائی اہم منصوبہ ہے جو قدرتی وسائل کا بہتا دریا سمجھا جاتا ہے۔ ان 9 منتخب طلباء کو بیرک گولڈ کے 2 سالہ گریجویٹ پروگرام کے تحت ایکسپرٹ اور لیڈرشپ پوزیشن کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ جس سے بلوچستان کے طلباء کے لیے بیرک گولڈ میں اہم پوزیشن پر تقرری کا شاندار موقع پیدا ہوگیا ہے۔ اس پروگرام سے مستفید ہونے والے بلوچ طلباء اپنے صوبے کے وسائل کی نگرانی خود کرنے کے اہل قرار پائیں گے۔ اس اہم ترین ڈویلپمنٹ پر بلوچ طلباء میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ مزید محنت کر کے ترقی کی منزلیں عبور کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ بلوچستان میں موجود معدنیات دنیا کے بڑے زخائر میں سے ایک ہیں جن سے صوبے اور ملک کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔
مگر کیا ہم اس سے صوبے اور ملک کی تقدیر بدلنے میں معاون ثابت ہونگے، اس کا فیصلہ اس بات پر منحصر ہے کہ اگر ہم نیک نیتی کے پرنسپلز عمل پیرا ہوکر ملک میں سیاسی، مذہبی، لسانی، صوبائی، قومیت پرستی، شدت پسندی جیسے معاشرتی موذی امراض سے اپنے اپ کو علیحدہ رکھ کر کر ایک دین، ایک قرآن، ایک وطن کے رکھوالے بن جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں