پاکستان کے تعلیمی اداروں کے جہاں بے شمار مسائل ہیں وہاں استائذہ کی تربیت کے لئے بھی کئی اصلاحی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ہمارے تعلیمی اداروں کا وہ ماحول نہیں رہا جو کئی عشرے قبل تھا اب سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیاست بازی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھیچی جاتی ہیں اور طلباء کو بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے اب صرف پڑھائی کے لئے کام نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہاں کئی اور طرح کی سر گرمیاں بھی جاری ہیں طلباء میں فون کا استعمال اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ وہ پڑھائی کی بجائے کئی گھنٹے فون کے استعمال میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہو سکے اور وہ آن لائن بدزبانی سے بچ سکیں۔اقوام متحدہ کے تعلیم،سائنس اور ثقافت کے ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موبائل فونز کا بہت زیادہ استعمال تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ موبائل فونز پر زیادہ وقت گزارنے سے بچوں کے جذباتی استحکام پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسکولوں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی انسانی تعلیم کے لیے معاون سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔یونیسکو نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اثرات سے خبردار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ اس کے سیکھنے اور معاشی افادیت کے حوالے سے مثبت اثرات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے،اور ہر تبدیلی کو پیشرفت نہیں قرار دیا جا سکتا ہے، ہر نئی چیز ہمیشہ بہتر نہیں ہوتی۔عالمی ادارے کے مطابق ڈیجیٹل انقلاب میں متعدد مواقع چھپے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات پر بھی بات کی جا رہی ہے، ایسی ہی توجہ تعلیم کے شعبے پر بھی مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔یونیسکو کی ایک رپورٹ میں ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنے کے تجربے کو بہتر بنانے اور طالبعلموں و اساتذہ کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے، مگر سب سے پہلے سیکھنے والوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔، آن لائن رابطے انسانی تعلقات کے متبادل نہیں ہو سکتے۔ دنیا بھر کے ممالک کو تعلیمی شعبے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو مفید بنانے اور اس کے نقصانات سے بچنے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں بین الاقوامی ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیاکہ اسکولوں اور گھروں میں اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹس یا لیپ ٹاپس کا بہت زیادہ استعمال طالبعلموں کی توجہ بھٹکانے کا باعث بنتا ہے جس کے باعث ان کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔دنیا بھر کے 200تعلیمی نظاموں کے تجزیے کے حوالے سے یونیسکو نے بتایا ہےکہ ہر 6میں سے ایک ملک نے اسکولوں میں اسمارٹ فونز پر پابندی عائد کی ہے۔آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہند 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کر دیے گئے اور ہم تا حال بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں “۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔ اسی طرح کی سوچ انگریز نے جمہوریت میں دی کہ کم ذہین ہے ایک صدی تک ہوس نہیں آنے دینی بے شک گھر سے پیسے لگانا پڑھیں۔اندازہ کریں کہ انگریز نے تعلیم کے مراحل پر کتنی توجہ دی ہے جس سے معاشرہ کی بہتری اور طلبا کی ذہنی سوچ کے دھاروں کو کتنا مدنظر رکھا گیا ہےمجھے تعلیم کے حوالہ سے ایک بات یاد آ گئی جو میں طلبا کی اصلاح کے لیے بیان کر رہا ہوں اوکاڑہ سے محمد انور گزشتہ 46 سال سے اخبار اور میگزین وغیرہ گھر گھر تقسیم کر رہے ھیں بارش ہو یا اندھی شائد ہی انہوں نے اپنی زمہ داری میں کبھی کوئی کوتاہی کی ہو
ان کی بیٹی ڈاکٹر بن گئی ہے اور اس نے چھ گولڈ اور سلور میڈل حاصل کیے ہیں ۔
ان کے 5 بچے ہیں خود تو صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کر سکے اور گزشتہ 46 سال سے اخبار بیچ رہے ہیں لیکن رب العالمین کا لاکھوں کروڑوں بار بھی شکر ادا کرتے ہیں کہ محدود آمدن اور مشکلات کے باوجود انھوں نے بچوں کی تعلیم کو مقدم رکھا اور آج ان کے تمام بچے اعلئ تعلیم یافتہ ہیں بڑا بیٹا pharmacist ہے اس سے چھوٹی بیٹی MPhil کمیسٹری اور BEd ہے۔ تیسرے نمبر والی بیٹی ڈاکٹر بن گئی ہے چوتھے نمبر والی MPhil Zoology ہےاور پانچواں بچہ Bsc Honour Chemistry ہے ۔ایک اخبار فروش کی ہمت اور جذبہ کو دیکھیں کہ کس طرح اس نے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی ہے تعلیمی اداروں کی اصلاح کے لیے ہم سب کو مل جل کر کام کرنا ہے اور انھیں تعمیری اور اصلاحی ادارے بنانا ہے تاکہ ہماری ریاست مضبوط ہو اور ہم ایک مضبوط قوم بن کر موجودہ دور کے چیلنچیز کا مقابلہ کر سکیں تعلیمی اداروں کی اصلاح کے لئے ہمیں ٹیچرز کی طرف بھی توجہ بھی دینی ہے اور ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل بھی کرنا ہے تعلیمی اداروں کی ری کنسٹرکشن کی اسد ضرورت ہے لیکن حکومتوں نے استائذہ کو صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے بات ہو رہی تھی ایک اخبار فروش کی کہ یہ ہے جذبہ جس سے اقوام بنتی ہیں اور طلبا اپنے والدین کے نام کو روشن کرتےہیں اگر تعلیمی اداروں میں ایسے بچے ہوں تو ملک کیوں نہ آگے پڑھے اور غریب کے بچے بھی اعلی عہدوں پر فائز ہوں اور معاشرہ کے رجحانات میں خود بخود تبدیلی آئے اگر ہم نے تعلیمی اداروں کی اصلاح کرنی ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہو گی پھر ہی ایک مکمل معاشرہ تشکیل پائے گا
