قوی کیلئے قوت بخش اور تسلی بخش ہونا ضروری ہے ورنہ بناؤ کے بجائے بگاڑ کے اتنے دریچے کھل جاتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔آئین ایک زندہ دستاویز ہے تو اس کا صاف مطلب نکلتا ہے یہ کوئی ڈیڈ باڈی نہیں، نہ محض ایک تاریخ ہے کہ ہم راوی اور مؤرخ کے بیچ میں پھنس کر رہ جائیں۔ دفعات، آئین کی ساخت اور فعل کی بنیادی اکائیاں ہوتی ہیں اور ہر اکائی ریاست کے ہر فرد کیلئے آکسیجن مہیا کرتی ہے۔ وہ آرٹیکل جو کسی ادارے کے سربراہ سے بلاواسطہ تعلق رکھتا ہو وہ ہر شہری سے بالواسطہ تعلق رکھ رہا ہوتا ہے!
ضروری ہے حکومت ذمہ داری لے اور لیڈرشپ دے! یہ نہیں کہ پہلے تو کوئی سیاہ و سفید کامالک ہو اور بعد میں خراب کام کی ذمہ داری لینے میں حیل و حجت سے کام لے جبکہ کامیاب کام کا باپ بننے میں لمحہ بھر کی دیر نہ کرے۔ وہ جو ناکامی بیوروکریسی پر ڈالنے کا فیشن ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اتھارٹی عاقبت نااندیش ہی نہیں کام چور بھی ہے۔ سیاست ایک ذمہ داری ہےجسے کچھ اکابر تو عبادت بھی گردانتے ہیں پس یہ ثابت ہوا حکمرانی میں امور کو احسن انداز میں نمٹانا حکومتی نمائندے یا وزیر پر واجب ہی نہیں فرض بھی ہے۔ مُلا کا ’’فرض‘‘اور مسٹر کی’’ڈیوٹی‘‘ ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں ، کوئی اسے سیاسی تناظر میں لے یا مذہبی زاویے میں۔
بات جب ذمہ داری یا فرض نبھانے کی ہوتی ہے تو حکومت اپنے غیر سیاسی دست و بازو ڈھونڈتی ہے، اس چناؤ میں میرٹ یا کسی ضابطے کو بروئے کار لانے اور اقربا پروری یا رشوت و سفارش بالائے طاق رکھنے کا خصوصی اہتمام عمل میں لایا جاتا ہے۔ جب کوئی سیکرٹری، معاون یا مشیر لگانا ہو تو محض ماجھا گاما یا چاچا ماما لگانا مقصود نہیں ہوتا کسی مفید شخصیت کو دریافت کرنا پڑتا ہے یا معقول شخصیت میں خوبیوں کو ایجاد کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ سب ہم اور ہمارے حکمران نہیں سوچیں گے تو افسر شاہی کیسے سوچے گی؟
بڑے اداروں کےچیئرپرسن، ایم ڈی یا ممبرز لگانے کا مطلب ہے حکومت اپنے پاؤں مضبوط کرنے کے درپے ہے اس ضمن میں وہ اگرچیئرمین واپڈا،چیئرمین اسٹیل مل یا چیئرمین سول ایوی ایشن یا سی ڈی اے وغیرہ اس کو لگا ئے جس کا میرٹ محض یہ ہو کہ یہ مخالف سیاسی جماعت کی خبر لیتا رہا ہے یا اپنی سیاسی جماعت کے اہم رکن کا سالا یا بہنوئی ہے ، اس کا مطلب یہ ٹھہرا کہ آپ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح پلاننگ کمیشن، پی ایم ڈی سی یا کسی بھی اتھارٹی اور بورڈ یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن ، صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن یا وی سیز جیسے سربراہان یا ممبران کو خود ساختہ میرٹ انجینئرڈ میرٹ کے ذریعے کوڑھ کی کاشت کو دوام بخشنے جا رہے ہوں تو یقیناً کل احتساب بھی ہوگا اور حساب کتاب بھی۔ پھر کیا بہانا بنائیں گے کہ منسٹر کا نہیں منسٹری کا قصور ہے، صاحب کا نہیں دفتری بابو کا قصور ہے؟ لیڈر شپ وزیراعظم ، وزرائےاعلیٰ ، وزرا اور ادارہ جاتی سربراہان کی یا وہ بابو ؟ پس ضرورت اس امر کی ہوتی اور رہتی ہے کہ وزیر ذمہ داری لے سیکرٹری نہیں۔ اس کیلئے تین چیزیں بیک وقت درکار ہیں: 1۔ پاورفُل ہونا، 2۔ تعلیم کے ساتھ حکمت سے آشنا ہونا، 3۔ وہ تنخواہ دار کہ جو مالدار سے مرعوب نہ ہو۔ ہر جگہ تجربہ نہیں، کہیں ساتھ جرات اور حکمت بھی درکار ہوتی ہے۔ ہر جگہ نمبرز نہیں کہیں قوی اعصاب بھی لازم ہیں۔ ہر جگہ انگریزی نہیں کئی جگہوں پر ساتھ ایمانداری کی گھن گرج بھی چاہئے۔ ایسے نہیں کہ جیسے جاتے جاتے پی ڈی ایم سارے سربراہی عہدے ہی اگلے چار پانچ سال کیلئے اقربا میں بانٹ گئی!
ایک اوپن سیکرٹ بتائیں کچھ ماہ قبل ایک بائیسویں گریڈ کے مسلسل تیسرے سرکاری ادارے میں مزے لینے والے ایگزیکٹو کے پاس بیٹھے تھے، حضور کہنے لگے اگر میں یہاں پرائیویٹ یونیورسٹی میں ہوں تو یہ یونیورسٹی اپاہج ہو جائے، اس صاحب سے کوئی پوچھے آپ کو ریاست نے تین جگہ اس لئے وی سی لگایا تھا آخر آپ پرائیویٹ سیکٹر کے اور پرائیوٹ سیکٹر آپ کا ‘فرنٹ مین بن جائے؟ پرائیویٹ سیکٹر بھی ہمارا ہی ہے تاہم آپ کا فرض ہے ریاستی نمائندہ ہوتےہوئےپبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز میں صحت مندانہ مقابلہ کی فضا پیدا کریں۔ ایسے سربراہ کو تو اسٹیٹس مین ہونا چاہئے نہ کہ مال و زر سے مرعوب نفسیاتی مریض۔
دو مختلف ضلعی افسران سے ایک دفعہ پوچھا کہ آپ کو بالائی افسر سے ڈر لگتا ہے یا عدالت سے۔ کہنے لگے دونوں سے نہیں۔ دونوں’’میننج‘‘ ہو جاتے ہیں ہمیں ڈر عوامی نمائندے سے لگتا ہے کہ وہ کہیں بھی پنچایت یا کچہری لگا لیتا ہے اور عوام اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، پھر وہ زمانہ و مردم شناس اور ہردلعزیز بھی ہوتا ہے۔ گر وہ سیانا لیڈر بھی ہو تو عدالت یا صوبائی افسر سے بہت اوپر کی بات ہوتا ہے، واضح رہے یہ کہ ایک افسر محکمہ ہیلتھ کا تھا اور دوسرا ایس پی!
ہم تو کہتے ہیں چیک بُک پر دستخط بھی وزیر/لیڈر شپ کے کردیں کہ آئندہ بقا ہو یا فنا! بہانے بازیاں کیسی؟ کمشنریا چیف سیکرٹری جیسے لاری اڈے بھی کیوں؟ وزرائے اعلیٰ کی براہ راست محکمہ سیکرٹری سے ہیلو ہائے ہو اور ضلعی آفیسرز کی اپنے متعلقہ سیکرٹری سے اور ضلعی پولیس آفیسر کی اپنے آئی جی سے۔ یہ پولیس میں بھی ڈویژنل افسر کیوں؟
آئین تو کمال زندہ دستاویز ہے، جو تحریری آئین کے بغیر ہیں اور اخلاقیات و روایات کو مقدم جانتے ہیں اُن برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ، سعودی عرب اور اسرائیل کا معیار تو دیکھئے! وزیراعظم، سالار اعظم سے عادل اعظم تک آئین، اخلاقیات اور روایات کو دیکھ لیں تو کوئی سانحہ جڑانوالہ ہو نہ سانحہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، نہ بجلی بلز اور پینشنز ہی آئی ایم ایف کا ڈومین ہوں، جہاں ایک عادل اسٹیک ہولڈر کو ساتھ بٹھانے کے بجائے ایک ’’پارٹی‘‘ ڈی پی او کو بٹھائے تو شاہد و زاہد بھی ہراساں نہیں ہوگا کیا؟
حاکمین اور بابو عمائدین ریاستی امور ایک دوسرے کے کندھوں پر ڈالیں گے تو پوری ریاست ہی عالمی اداروں کے کندھوں پر چلی جائے گی!
