باغی کا خواب

یوں تو ہر طرف انحطاط اور زوال کا عالم طاری ہے ۔رہروانِ سیاست کو دیکھ لیجئے۔سیاست جو کبھی اصولوں کا پیشہ ہوا کرتی تھی، اب ابوالفضولوں کا مشغلہ بن چکی ہے۔سیاست جو کسی دور میں نظریئے، سوچ اور کردار سے عبارت تھی، اب ماردھاڑ اور مخالفین پریلغار کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔سیاست جو ماضی میں شعوری پختگی اور دوراندیشی کے باعث قومی مسائل کے حل کی موثر تدبیر گردانی جاتی تھی اب طفلانہ پن اور ناپختگی کے باعث اسے تعزیر سمجھا جاتا ہے۔بہرحال انحطاط کے اس دور میں بھی ایسی دیدہ ور شخصیات موجود ہیں جنہوں نے اپنی ذات،سیاسی جماعت اور ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیااور کوچہ سیاست کے وقار میں اضافہ کیا۔جاوید ہاشمی اس ضمن میں سرفہرست ہیں۔جب فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ان پر غداری کا مقدمہ بنایا گیا اور وہ اڈیالہ جیل میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے تو نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود میں ان سے ملنے کے لئے لاہور سے راولپنڈی جایا کرتا تھا ۔ اس دوران وہ اپنی تصنیف ’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ صفحہ قرطاس پر منتقل کررہے تھے اور اس حوالے سے بھی مشاورت کا سلسلہ چلتا رہتا۔کچھ دن پہلے جب ان سے ٹیلیفون پر بات ہوئی تو میں نے انہیں ان کا ایک خواب یاد دلایا اور بتایا کہ لگ بھگ 20برس قبل جیل کی سلاخوں کے پیچھے انہوں نے جو خواب دیکھا تھا اب اسے حقیقت کا روپ دیا جارہا ہے۔ نقش ِکہن مٹ رہا ہے۔ ایک نیا منظر نامہ تشکیل پا رہا ہے اور دنیا بدل رہی ہے۔اگر آپ جاوید ہاشمی کی کتاب ’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ کے صفحہ نمبر 248پر موجود ان کا خواب ملاحظہ فرمائیں اور پھر پاکستان کے سفارتی اورتجارتی تعلقات کے تناظر میں چین اور روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربتیں دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے کہ ایک مرد قلندر جو جیل میں قید تھا اس کے تخیل کی پرواز کس قدر بلند تھی۔
میں آپ کو ’’میرا خواب‘‘کے عنوان سے ان کی اس تحریر کا محض ایک چھوٹا سا اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو ان کی بصیرت اور دوراندیشی کا ادراک ہوسکے۔وہ لکھتے ہیں ’’میں دیکھتا ہوں ،نئی دنیا کا سورج ابھر رہا ہے۔یہ انقلاب مرحلہ وار آئے گا۔پہلے مرحلے کے اس تغیروتبدل کے دور میں چین اور مسلمان ممالک ،جنوبی امریکہ کے ممالک اور افریقہ اتحادی بن کر سامنے آرہے ہیں۔جنوب مغربی یورپ اس اتحاد سے قربت کو ترجیح دے گا۔روس اور مشرقی یورپ بھی اپنے آپ کو زیادہ دیر تک لاتعلق نہ رکھ سکے گا۔اسرائیل،امریکہ ،برطانیہ ایک کشتی کے سوار ہوں گے۔دنیا کی پسی ہوئی قومیں ایک دوسرے کی ممد و معاون ہوں گی۔امریکہ کی جکڑ بندیاں خود اس کےعوام کیلئےسوہان روح بن جائیں گی اور امریکہ کے اندر آزادی کی لہر اٹھے گی۔جب میں آزادی کا ذکر کرتا ہوں تو اس سے میری مراد ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کی انسان پر بالادستی کا خاتمہ ،استحصالی نظام کی تباہی اوروسائل کی مساوی تقسیم کے نظام کا احیا۔ انسان کی آزادی فکر کو جس طرح فرد ِواحد کی بالادستی قبول نہیں اسی طرح ملکِ واحد کی بالادستی بھی قابل قبول نہیں۔میں مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھتا ہوں ، اس کی شعاعیں میرے دارلحزن کو ضوفشاں کر دیتی ہیں۔‘‘
اپنی دوسری تصنیف ’’تختہ دار کے سائے تلے ‘‘ میں اسی خواب کو آگے بڑھاتے ہوئے جاوید ہاشمی نے لکھا’’مقبوضہ تیسری دنیا اب دوسری دنیا بن گئی ہے۔اب ان میں مناقشہ کی جگہ مفاہمت کو اہمیت حاصل ہورہی ہے۔پاکستان ،ہندوستان،چین اور تائیوان مخالفت کے باوجود ملکر معاشی تعاون پر مبنی پروگرام بنا رہے ہیں ۔نفرت کی دیواریں گر رہی ہیں۔‘‘جاوید ہاشمی کا خواب حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے ۔سی پیک کے دس سال مکمل ہونے پر تقریبات کا سلسلہ جاری ہے ۔اس کے ساتھ نئی سرمایہ کاری آرہی ہے۔چین چشمہ 5جوہری پلانٹ کے منصوبے پر کام کا آغاز کر چکا ہے جس سے 1200میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔بھارت،پاکستان،افغانستان،ترکمانستان گیس پائپ لائن منصوبے پر کام جاری ہے ۔سعودی عرب اور ایران کی دیرینہ مخاصمت ختم ہوچکی ہے یہ باتیں ہورہی ہیں کہ اگر چین ان دونوں ممالک کی دوستی کرواسکتا ہے تو پھر پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر کیوں نہیں آسکتے۔اسی طرح روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہورہے ہیں ۔بات صرف روسی تیل کی درآمد تک محدود نہیں رہی بلکہ امکانات کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔دنیا واقعی بدل رہی ہے۔لیکن کچھ خواب عذاب بن چکے ہیں اور جمہوریت پسندوںکیلئے سوہان روح ہیں ۔اس خطے میں معاشی صف بندی کے حوالے سے جاوید ہاشمی نے جو خواب دیکھا تھا وہ تو پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن سویلین بالادستی کا خواب جس کیلئے ان سمیت بیشمار پاکستانیوں نے ان گنت قربانیاں دیں اور ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں ،اس حوالے سے مجھے شدید مایوسی کا سامنا ہے اور وہ خواب بکھرتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔خدا کرے میرے خدشات غلط ہوں اور جاوید ہاشمی کا یہ خواب بھی بہت جلد حقیقت کا روپ دھار لے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں