قیام پاکستان کے اعلان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح 7 اگست 1947 کو کراچی تشریف لائے ۔
کراچی نئے ملک کا دارالحکومت بننا تھا۔ 10 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا۔
لیاقت علی خان کی تجویز اور خواجہ ناظم الدین کی تائید پر اسمبلی کے غیر مسلم رکن جوگندر ناتھ منڈل
کو اجلاس کی صدارت کے لئے چنا گیا ۔ اس کے بعد اراکین اسمبلی نے اپنی اپنی رکنیت کا ثبوت
پیش کر کے رجسٹر پر دستخط کئے ۔ اگلے دن یعنی 11 اگست کو اجلاس دوبارہ ہوا ۔
7 اراکین اسمبلی نے محمد علی جناح کو لیڈر آف دی ہاؤس نامزد کیا اور 7 اراکین نے اس نامزدگی کی تائید کی۔
کیونکہ مخالفت میں کوئی امیدوار نہیں تھا اس لئے محمد علی جناح کو متفقہ طور پر دستور ساز اسمبلی کا منتخب صدر قرار دیا گیا ۔
اس مرحلے پر ایوان میں لیاقت علی خان، کرن شنکر رائے ، ایوب کھوڑو ، جوگندر ناتھ منڈل اور ابو القاسم نے تقاریر کیں۔
اس موقع پر ملک کے نامزد سربراہ محمد علی جناح نے یادگاری خطاب کیا
اس کی تیاری کے لئے انہوں نے کئی گھنٹے صرف کیے۔ دوران خطاب قائد اعظم نے پاکستان کے تمام شہریوں
کو برابر کے شہری قرار دیا اور کہا” سب شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور اس معاملے میں مذہب و ملت کا امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا”۔
یہ تقریر قائد اعظم کی وسعت نظری کی دلیل ہے کیونکہ چار روز پہلے جب وہ کراچی میں فاتحانہ شان سے کراچی کی سڑکوں سے گزر رہے تھے
تو انہوں نے شہر میں بسنے والے ہندوؤں کو خاموش اور متفکر پایا۔
شاید اسی لئے قائد اعظم نے 11 اگست کی تقریر میں یہ واضح کر دیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے
بلکہ واقفان حال جانتے ہیں کہ ان کی اس تقریر کو اگلے دن کے اخبارات میں پوری طرح شائع ہونے سے روکنے کے لئے
کچھ قوتیں متحرک ہو گئی تھیں مگر یہ کریڈٹ اس وقت کے ایک اہم اخبار کے ایڈیٹر کو جاتا ہے کہ انہوں نے وہ سب
کچھ غیر تحریف شدہ الفاظ میں چھاپ دیا۔
مگر افسوس بعد میں آنے والے حکمرانوں کے دور میں قائد اعظم کی اس تقریر کو ضائع کرنے کی بھر پور کوششیں کی گئیں ۔
سازشی عناصر جہاں جہاں سے اس تقریر کا نام و نشان مٹا سکتے تھے انہوں نے مٹا دیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح
نے اس تقریر میں کہا تھا “آپ آزاد ہیں ،اپنے مندروں میں جانے کے لئے ۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے۔
آپ آزاد ہیں اپنے گرجا گھروں میں جانے کے لئے اور آپ آزاد ہیں ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ
میں جانے کے لئے ۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں”۔
اس میں تو کوئی ابہام نہیں کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے مگر یاد رہے کہ جس طرح ریاست مدینہ
میں غیر مسلوں کو احکامات الٰہی کے عین مطابق شہری حقوق حاصل تھے اسی طرح دستور پاکستان میں بھی غیر مسلم
اقلیتوں کو مذہب، عقیدے اور رنگ و نسل کے امتیازی سلوک کے بغیر تمام شہری حقوق دئیے گئے ۔
مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں اقتدار کی ٹھیکیداریاں کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں بھی رہیں
جو قیام پاکستان کے خلاف تھے۔
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے طبقات آگے بڑھ گئے جنہوں نے اقلیتوں کے لئے
زندگیاں تنگ کیں۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اقلیتوں کی پہچان کے لئے قومی پرچم میں سفید رنگ رکھوایا ۔
علی احمد ڈھلوں کی کتاب”پاکستان کی روشن اقلیتیں” جس میں ڈھلوں صاحب نے پاکستان کے لئے اعلیٰ ترین
خدمات انجام دینے والی شخصیات کا تذکرہ بڑے اہتمام سے کیا ہے ۔
مگر ساتھ ہی ایک افسوس ناک پہلو کی نشاندہی بھی کی کہ جب پاکستان بنا تو وطن عزیز میں
اقلیتوں کی آبادی 24 فیصد تھی۔ مگر آج وہ آبادی صرف 5 فیصد ہے ۔ قیام پاکستان میں اقلیتوں
کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے وقت
صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ اور کانگریس کے ارکان کی تعداد برابر تھی۔ پھر 3 عظیم مسیحی اراکین
نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور پاکستان کو وہ علاقے مل گئے جن پر کانگریس دعویدار تھی۔ ان تین اراکین میں سے ایک ایس پی سنگھا کو قیام پاکستان کے بعد صوبائی اسمبلی کا سپیکر بنایا گیا ۔ قائد اعظم نے تو پہلا وزیر قانون بھی ایک ہندو کو بنایا تھا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہندو اور عیسائی چیف جسٹس رہے۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کو جو تقریر کی تھی اسے چارٹر آف پاکستان کہا جا سکتا ہے ۔ مگر یہ کون لوگ ہیں جو قائد اعظم کے خیالات کو خاک آلودہ کرنا چاہتے ہیں ۔
صاحبو!! یہ تمام باتیں مجھے اس لئے یاد آئیں کہ پچھلے دنوں کراچی میں ایک ہندو ڈاکٹر
اور پشاور میں ایک سکھ تاجر کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ۔ پشاور میں قتل ہونے والے سکھ
دیال سنگھ کا کمال یہ تھا کہ وہ رمضان المبارک میں اشیائے خوردونوش سستے داموں فروخت کرتا تھا۔
شاید کچھ لوگوں کو اس کی یہ ادا پسند نہ آ سکی ۔ پشاور میں سکھ اکثریتی علاقہ جوگن شاہ سوگوار ہے
کیونکہ پچھلے 7 برسوں میں ساتواں سکھ قتل ہو گیا ہے۔ کراچی میں قتل ہونے والے ڈاکٹر بیربل گینانی انسانوں کے بڑے خدمت گار تھے ۔ وہ اتوار کے دن اپنی گاڑی میں نظر کے سینکڑوں چشمے،
آنکھوں کی ادویات اور دیگر سامان لے کر فری کیمپ لگانے اندرون سندھ چلے جاتے۔
ڈاکٹر بیربل گینانی کے ایم سی میں ڈائریکٹر ہیلتھ رہے۔ کراچی کے لوگ انہیں ایک
فرشتہ صفت انسان سمجھتے تھے مگر یہ کون لوگ تھے جنہوں نے گارڈن
کے علاقے رام سوامی میں کلینک چلانے والے فرشتہ صفت انسان کو چھین لیا ۔
ڈاکٹر بیربل گینانی آنکھوں کے ماہر تھے ۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی بیٹی سپنا کماری
نے ڈینٹل سرجری میں ڈگری حاصل کی تو ڈاکٹر بیربل نے اپنے ایک دوست سے کہا
کہ ” میرے صوبہ سندھ کے لوگ بڑے غریب ہیں اب میں لوگوں کی آنکھیں
اور میری بیٹی لوگوں کے دانت مفت ٹھیک کریں گے”۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے معاشرے سے خوبصورت انسان کون
چھین رہا ہے اور یہ زہر کون گھول رہا ہے۔ چی گویرا نے کہا تھا
” آئین صرف آزاد اور بااختیار قوموں کے لئے ہوتے ہیں ۔
غلاموں کے لئے بندوق اور مذہب ہوتا ہے”۔ کیسی عجیب بات ہے
ہمارے نوجوان صحافی رائے ثاقب کھرل کہتے ہیں کہ
” ایک مجسٹریٹ کے حکم کی تعمیل کے لئے لاہور کو میدان جنگ
بنانے والے کہتے ہیں ہم چیف جسٹس کا حکم نہیں مانتے ۔
آئین نہیں مانتے ، قانون نہیں مانتے”۔ ہماری حکومتیں لوگوں کی جان و مال
کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوتیں تو ہماری جھولی سے دیال سنگھ
اور ڈاکٹر بیربل گینانی جیسے موتی نہ گرتے۔ برسوں پہلے لاہور میں
خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر کو شہید کر دیا گیا تھا اس مرحلے پر اس خاکسار نے یہ کہا تھا کہ
اک اجنبی کو شہر میں سانپوں نے ڈس لیا
پھر اس کا زہر پھیل گیا دور دور تک