عقیدہ ختم نبوت، قرآن پاک کی ایک سو آیات مبارکہ اوردو سو دس احادیث سے ثابت ہے ، پوری امت مسلمہ اس عقیدے پر متفق ہے ، اور یہی عقیدہ مسلمانوں کے ایمان کی اساس اور بنیاد ہے۔ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت پر ایمان،نجات و مغفرت ،حصول جنت اورشفاعت محمدی کے حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔منکرین ختم نبوت کا فتنہ آپکی حیات طیبہ میں شروع ہو گیا تھا، جھوٹے مدعیان نبوت نے سر اٹھایا اور کفر و ارتداد پھیلانے کی ناپاک کوشش کی مگر صحابہ کرام نے ان کا قلع قمع کیا۔ اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کوکیفر کردار تک پہنچاکر ہمیشہ کے لیے ان کو نشان عبرت بنا دیا۔عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جنگ یمامہ میں بارہ سو صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیا۔ انیسویں صدی کے آخر میںبے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ ایک خود ساختہ نبوت قادیانیت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جس کی تمام تر وفاداریاں انگریزی طاغوت کے لیے وقف تھیں، انگریز کو بھی ایسے ہی خاردار خود کاشتہ پودے کی ضرورت تھی جس میں الجھ کر مسلمانوں کا دامن اتحاد تار تار ہوجائے، اس لیے انگریزوں نے اس خود کاشتہ پودے کی خوب آبیاری کی۔ اس فرقہ کے مفادات بھی انگریز حکومت سے وابستہ تھے ، اس لیے اس نے تاج برطانیہ کی بھر پور انداز میں حمایت کی۔ ملکہ برطانیہ کو خوشامدی خطوط لکھے ، حکومت برطانیہ کے عوام میں راہ ہموار کرنے کے لیے حرمت جہاد کا فتویٰ دیا۔مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علماء کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلہ میں میدان عمل میں نکلے۔ اور برصغیر پاک و ہند میں جب مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ملعون نے اپنے خود ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیاتو علماء ومشائخ نے اس فتنے کے سدباب کے لیے ہر میدان میں قادیانیت کا محاسبہ کیا ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں7 ستمبر وہ تاریخ ساز دن ہے جب 1974 ء میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے بحث و مباحثہ اور ہر پہلو پر مکمل غور و خوض کے بعد قادیانیوں، احمدیوں اورمرزائیوں کی حیثیت کا تعین کیا اور متفقہ طور پر انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ اس فیصلے کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں کو غیرمسلم قراردیا۔اس فیصلے نے جہاں اہلیان پاکستان کے دینی جذبات کی مکمل ترجمانی کی وہاں پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں پاکستان کی قدر کو بھی بڑھا دیا کہ پاکستان کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہیں، مگر ختم نبوت پر کسی کو ڈاکا ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔
دشمنان اسلام کی جانب سے ہر دور میں مسلمانوں کو اسلام سے گمراہ کرنے کی کوششیں جاری رہی ہیں۔ دشمنوں کی ان سازشوں پر نگاہ رکھنے، اور ان کی مسلمانان اسلام کو راہ راست سے بھٹکانے کی گھناؤنی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ہر سال سات ستمبر کا دن یوم تحفظ ختم نبوت کے طورپر منایا جاتا ہے ۔ زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تابناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ’’تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ۔ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قویٰ میں تناسب ہوتا،چھاتی45 انچ کی، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا،انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں ہرگز نہیں، میاں! آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج نبوت و رسالت جس کے سر پر ناز کرے، تاجدار ختم نبوت محمدصلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔‘‘
