کیا سو روپیہ پھوٹی کوڑی بن چکا ہے-
پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں “پھوٹی کوڑی” کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔
دنیا کا پُرانا ترین سکہ شاید یہی ’’پھوٹی کوڑی ‘‘ہے۔ ’’پھوٹی ‘‘ کا نام اسے اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔
تین پھوٹی کوڑیوں کے گھونگھے ایک پوری کوڑی کے برابر تھے۔ جو ایک چھوٹا سا سمندری گھونگھا تھا۔ لیکن ان دونوں کی کوئی آخری حیثیت / ویلیو تھی۔ وہ ’’روپا‘‘ تھی۔ جسے بعد میں ’’روپیہ‘‘ کہاجانے لگا۔ ایک’’روپیہ ‘‘5,275’‘پھوٹی کوڑیوں‘‘ کے برابر تھا۔ ان کے درمیان دس مختلف سکے تھے۔جنہیں ’’کوڑی‘‘، دمڑی‘‘، ’’پائی‘‘، ’’دھیلا‘‘، ’’پیسہ‘‘، ’ٹکہ‘‘، ’’آنہ‘‘، ’’دونی‘‘، ’’چونی‘‘، ’’اٹھنی‘‘ اور پھر کہیں جا کر ’’روپیہ‘‘ بنتا تھا۔
کرنسی کی قیمت یہ تھی-
3 پھوٹی کوڑی= 1کوڑی
10کوڑی = 1 دمڑی
02دمڑى = 1.5پائى
ڈیڑھ پائى = 1 دهيلا
2دهيلا = 1 پيسہ
تین پیسے= ایک ٹکہ
چھ پيسه یا دو ٹکے= 1 آنہ
دو آنے= دونی
چار آنے= چونی
آٹھ آنے= اٹھنی
16 آنے = 1 روپيہ
جس طرح اردو زبان کے روزمرہ میں “پھوٹی کوڑی” کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔ اسی طرح
کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جانا
“چمڑی جائے پر دمڑی نہ جاۓ۔” در اصل کنجوسی کی شدید حالت کو بیان کرنےکے لئیے استعمال ہوتا ہے
ایک پائی نہ ہونا غربت کا مظہر …
ایک دھیلے کا نہ ہونا ذراکم غربت ..
ایک ٹکے کی اوقات (ذلیل کرنے کا غیر مہذب بیانیہ).
سب سے اعلی اور مکمل حیثیت روپیہ کی تھی (جس میں سولہ آنے ہوتے تھے) اس لئیے بات کا سولہ آنے صحیح ہونا 100 فیصد صحیح کے مترادف ہوتا تھا
