بٹگرام ریسکیو آپریشن کامیاب رہا ،قیمتی جانیں بچانے پر افواج پاکستان کے کمانڈوز،ریسکیو 1122کے اہلکار،سماجی تنظیموں کے کارکن اوربالخصوص وہ مقامی ہیرو صاحب خان مبارکباد کا مستحق ہے جو اپنی جان ہتھیلی پرلئےاس خطرناک مہم جوئی پر روانہ ہوگیا۔لیکن یہ واقعہ ہمارے کوڑھ زدہ سماج کو مزید بے نقاب کرگیا۔جہاں بوسیدہ نظام حکومت کی کمزوریاں آشکار ہوئیں ،وہاں اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوا کہ سیاسی تقسیم کی بنیاد پرلاحق ہوجانے والا بغض و عناد اور کینہ کا مرض کس طرح ہماری رگوں میں سما چکا ہے۔سب سے پہلے تو یہ عذر پیش کیا گیا کہ لفٹ ایک رسی سے لٹکی ہوئی ہے،اس کے اوپر 30فٹ کے فاصلے پر ایک اور رسی ہے۔ہوا کا دبائو بہت زیادہ ہے ،بہت مشکل ترین آپریشن ہے ۔تکلف برطرف ،ریسکیو آپریشن ہمیشہ پیچیدہ اور مشکل ہی ہوا کرتے ہیں۔معاملہ حکومتی اداروں کی اہلیت اور قابلیت کا ہے۔لیکن جیسے تیسے ان افراد کو بچالیا گیا تو تعصبات کاشکار لوگوں نے یہ بحث چھیڑ دی کہ اس کامیابی کا کریڈٹ کسے جاتا ہے۔جب دنیا بھر میں پاکستان کی تعریف کی جارہی تھی تو ہمارے ہاں یہ جھگڑا شروع ہوگیا کہ کس نے کتنے بچوں کو ریسکیو کیا۔ افواج پاکستان پر تنقید کی جانے لگی کہ انہوں نے سارا دن ضائع کردیا ۔تمام تر لائو لشکر کے ساتھ کمانڈوز نے صرف ایک بچے کی زندگی بچائی جبکہ باقی 7لوگوں کو مقامی افراد نے نکالا۔اگر کمپنی کی مشہوری کیلئے ہیلی کاپٹر بلوا کر ایندھن اور وقت ضائع نہ کیا جاتا تو مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی یہ کام کرلیتے۔ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے ،یہ حادثہ تو صبح 7:45پر پیش آیا۔کئی گھنٹوں سے یہ لوگ فضا میں معلق تھے ۔میڈیا پر دہائی دی گئی اور حکومتی مشینری متحرک ہوئی تو دوپہر میں غالباً2سے 3بجے کے درمیان پہلا ہیلی کاپٹر آیا۔ان 6گھنٹوں میں کسی کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اپنی مدد آپ کے تحت متاثرہ افراد کو بچالیا جائے؟کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا اس لئے کہا گیا کہ 900فٹ کی بلندی پر جھولتی ’’ڈولی‘‘میں موجود افراد کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکالا جائے گا لیکن جب ہیلی کاپٹر آگیا تو اس حقیقت کا اِدراک ہوا کہ اس کے قریب آنے پر ہوا کے دبائو کے باعث ’’ڈولی‘‘جھولنے لگتی ہے ۔اگر جلد بازی میں وہ ایک رسی بھی ٹوٹ جاتی جس کے سہارے پر یہ ’’ڈولی‘‘کھڑی تھی تو اس میں بیٹھے طلبہ اور اساتذہ کی موت کا ذمہ دار کون ہوتا؟گھروں میں بیٹھ کر موبائل فون استعمال کرتے ہوئے تبصرہ کرنے اور میدان عمل میں خطروں سے کھیلتے ہوئے کوئی کام سرانجام دینے میں بہت فرق ہوتا ہے۔مقامی افراد جن میں ایک کمپنی کے صاحب خان سرفہرست ہیں ،انہیں بھی فوج ہی لے کر آئی اور آخری وقت تک تمام افراد نے مل کر کام کیا تب جاکر کامیابی ملی ۔چارپائی نما ایک چھوٹی ’’ڈولی‘‘بنا کر اسے متاثرہ ڈولی کے قریب لے جایا گیا،تجرباتی طور پر ایک بچے کو واپس لایا گیا اور پھر اسی عمل کو دہراتے ہوئے دیگر افراد کی زندگیاں بچائی گئیں۔قصہ مختصر یہ کہ سب نے ملکر اس واقعہ کو سانحہ بننے سے روکا۔
افسوسناک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخواکے بیشتر علاقوں میں آمد ورفت کے ذرائع محدود اور خطرناک ہیں ۔ میںچونکہ بذات خود اس بات کا کئی بارمشاہدہ کرچکا ہوںاس لئے صبح جب خبر آئی تو سمجھنے میں دیر نہیں لگی مگر بیشتر لوگ گھنٹوں اس مغالطے کا شکار رہے کہ شاید یہ کوئی تفریحی نوعیت کی چیئر لفٹ تھی اور یہ بچے اساتذہ کے ساتھ سیر پر گئے ہوئے تھے۔بٹگرام کی تحصیل الائی میں جانگری اور بٹنگی کو ملانے والی یہ ’’ڈولی‘‘اکلوتی کیبل کار نہیں ہے بلکہ خیبرپختونخوا میں اس نوعیت کی سینکڑوں دیسی ساختہ لفٹ ،کیبل کار ،ڈولی یا پھر زپ لائنز روزمرہ آمد و رفت کیلئے استعمال ہوتی ہیں ۔ڈپٹی کمشنر سے تحریری اجازت نامہ لینے کے بعدبنائی جانے والی یہ ’’ڈولی‘‘جو دو پہاڑوں یا پھر کسی دریا اور ندی نالے کے اوپر چلتی ہے ،کہیں اس ’’ڈولی‘‘کو کہار رسی کی مدد سے کھینچتے ہیں تو کہیں پیٹرول یا ڈیزل انجن سے چلائی جاتی ہے۔مقامی افرادآپریٹر سے ماہانہ کرایہ طے کرلیتے ہیں اور پھرآنے جانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔اس ترقی یافتہ دور میں بھی لوگوں کو آمد و رفت کے ذرائع کیوں دستیاب نہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت بنائی گئی اس ’’ڈولی‘‘میں بیٹھ کر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟یہ ہے وہ سوال جس پر حکومتوں کو غور کرنا چاہئے ۔
جب نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ٹویٹ کی کہ انہوں نے اس واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اور متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ اس طرح کی چیئر لفٹس جہاں جہاں نصب ہیں ان کا حفاظتی نکتہ نظر سے معائنہ کیا جائے۔تو مجھے تشویش لاحق ہوئی کہ اب خیبرپختونخوا کے پسماندہ لوگوں سے آمد و رفت کے یہ ذرائع بھی چھن جائیں گے۔بجائے اس کےکہ حکومت پہاڑی علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کو سہولتیں مہیا کرے ،سڑکیں اور پل تعمیر کرے یا پھر کم ازکم معیاری اور محفوظ کیبل کار لگا کردے ،افسر شاہی نے اس معاملے سے نمٹنے کا نہایت تیر بہدف نسخہ دریافت کیا ہے اور وہ ہے ،نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔اطلاعات یہ ہیں کہ ڈپٹی کمشنر سے اجازت نامہ لیکر بنائی گئی ’’ڈولی‘‘کی تنصیب کا عمل مزید مشکل اور پیچیدہ بنایا جارہا ہے ۔اب نہ صرف پہلے سے کام کر رہی ایسی کیبل کارز کو ریگولرائز کرنے کی آڑ میں رشوت کا بازار گرم ہوگا،فٹنس سرٹیفکیٹ جاری ہوں گے۔کسی نئی جگہ ’’ڈولی‘‘ نصب کرنے کیلئے باقاعدہ NOCلینا پڑے گا،سرکاری دفاتر میں جوتیاں گھسنا پڑیں گی۔یہ ہے اس بوسیدہ ،گھٹیا اور ظالمانہ نظام کی’’ڈولی‘‘جس میں عوام گزشتہ 76برس سے جھول رہے ہیں ۔ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ ہر بار انہیں ریسکیو کرنے کی آڑ میں ایک اور رسی کاٹ دی جاتی ہے اور ستم رسیدہ عوام چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں ۔بچانے کیلئےآنے والا ہر رہبر ،رہزن نکلتا ہے،ہر ہیرو ،زیرو ہوجاتا ہے اور ہر مسیحا ،مریض محبت کو ایک اور چوٹ دے کر نکل جاتا ہے۔
