دل پہ یوں کیفیتِ کرب و بلا طاری ہو
آنکھ لگ جائے تو خوابوں میں عزاداری ہو
–
مجھ کو عرفان کی وہ نہج عطا کر مولا
تیرے رہوار کو چھونا میری زوّاری ہو
–
درد اتنا ہو کہ شدت سے جگر پھٹ جائے
اس قدر اشک بہیں آنکھ سے خوں جاری ہو
–
عشقِ شبیرؑ کا دستور بہت سادہ ہے
خود پرستی نہ ہو،انسان میں خودداری ہو
–
فجر تک آنکھ کو بیدار رکھے عشقِ حُسینؑ
عصر سے پہلے مرے قلب کی بیداری ہو
–
چشم بستہ میں رکھوں شاہ کی نعلین پہ سر
میرے مقسوم میں حُر جیسی گنہگاری ہو
–
چوم کر زخم یہ اصغرؑ سے کہا زہراؑ نے
مسکرا دے کہ ترے بابا کی غمخواری ہو
–
سسکیاں لے کے وہ بابا کو پکارے کیسے۔ ۔ ۔
سانس لینے میں بھی جس بچی کو دشواری ہو
–
ایسے مرنے کے لیے ہوتے تھے تیار حسینؑ
جیسے پردیس سے گھر جانے کی تیاری ہو
–
عصرِ عاشور ہو مقتل میں قمہ کا ماتم
اور میسر ہمیں مختار کی سالاری ہو۔ ۔ ۔
–
گھر ترے عشق میں لٹ جائے تو بر آئے مراد
سر تری راہ میں کٹ جائے تو سرشاری ہو۔ ۔
–
خون سے ریت کی سیرابی کا مقصد یہ ہے
دشت میں باغِ ولایت کی شجر کاری ہو
–
عرش جیسے ترے مقتل کا کوئی زینہ ہو
خلد جیسے تری جاگیر کی رہداری ہو۔ ۔ ۔
–
کربلا والوں کی مدحت پہ ہوا ہوں مامور
میں نے چاہا تھا مری نوکری “سرکاری”ہو
