Adnan Mohsin

سلام۔۔۔

دل پہ یوں کیفیتِ کرب و بلا طاری ہو
آنکھ لگ جائے تو خوابوں میں عزاداری ہو

مجھ کو عرفان کی وہ نہج عطا کر مولا
تیرے رہوار کو چھونا میری زوّاری ہو

درد اتنا ہو کہ شدت سے جگر پھٹ جائے
اس قدر اشک بہیں آنکھ سے خوں جاری ہو

عشقِ شبیرؑ کا دستور بہت سادہ ہے
خود پرستی نہ ہو،انسان میں خودداری ہو

فجر تک آنکھ کو بیدار رکھے عشقِ حُسینؑ
عصر سے پہلے مرے قلب کی بیداری ہو

چشم بستہ میں رکھوں شاہ کی نعلین پہ سر
میرے مقسوم میں حُر جیسی گنہگاری ہو

چوم کر زخم یہ اصغرؑ سے کہا زہراؑ نے
مسکرا دے کہ ترے بابا کی غمخواری ہو

سسکیاں لے کے وہ بابا کو پکارے کیسے۔ ۔ ۔
سانس لینے میں بھی جس بچی کو دشواری ہو

ایسے مرنے کے لیے ہوتے تھے تیار حسینؑ
جیسے پردیس سے گھر جانے کی تیاری ہو

عصرِ عاشور ہو مقتل میں قمہ کا ماتم
اور میسر ہمیں مختار کی سالاری ہو۔ ۔ ۔

گھر ترے عشق میں لٹ جائے تو بر آئے مراد
سر تری راہ میں کٹ جائے تو سرشاری ہو۔ ۔

خون سے ریت کی سیرابی کا مقصد یہ ہے
دشت میں باغِ ولایت کی شجر کاری ہو

عرش جیسے ترے مقتل کا کوئی زینہ ہو
خلد جیسے تری جاگیر کی رہداری ہو۔ ۔ ۔

کربلا والوں کی مدحت پہ ہوا ہوں مامور
میں نے چاہا تھا مری نوکری “سرکاری”ہو

اپنا تبصرہ بھیجیں