Muhammad mehdi

پاک ترکیہ دوستی

پاکستان اور تركی کی دوستی غیر معمولی طور پر مضبوط ہے ۔ تركی کے صد ساله قومی دن کی تقریب کے دوران میں نے لاہور میں تعینات نئے ترک قونصل جنرل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آمد سے اس دوستی کو مزید چار چاند لگ جانے چاہئیں ۔ تقریب کے شرکا کی تعداد قدرے محدود تھی مگر یہ طے تھا کہ ہر شخص اس دوستی کو مزید بلندیوں پر دیکھنا چاہتا ہے۔ میں نے ترک قونصل جنرل سے کہا کہ اس مضبوط دوستی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان جس سطح کی کاروباری سرگرمیاں ہونی چاہئیں، وہ موجود نہیں اور اس شعبے میں با آسانی مزید کامیابیاں سمیٹنا ممکن ہے ۔ اسی نوعیت کی گفتگو میں نے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے حوالے سے منعقدہ سمپوزیم ،جس کا انعقاد میں نے بطور چیئر مین انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ کے کیا تھا، میں کی۔ قونصل جنرل چین زاؤ شیرین کی بطور مہمان خصوصی تقریر کے بعد اپنی اختتامی میں ،میں نےعرض کیا کہ کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی پہاڑوں سے بلند ، سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ شیریں ہے مگر اس کو ابھی مزید بلند ، گہرا اور میٹھا کرنے کی گنجائش موجود ہے اور تیسرے بی آر ایف فورم میں اس کی جانب قدم بڑھایا گیا ہے ۔ اور اسکےساتھ ساتھ پاکستان میں بھی مزید ایسے اقدامات کئے گئے ہیں کہ جن سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید تقویت نصیب ہوگی ۔ ان اقتصادی تعلقات کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی نوعیت کے روابط کو بڑھایا جائے کیوں کہ بسا اوقات ثقافتی طور پر دوری کو کوئی بھی بد خواہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر سکتا ہے چنانچہ دونوں ممالک میں اردو اور چینی زبان کوعام کیا جائے اور خاص طور پر ان افراد کیلئے جو آپس میں تجارت ، تعلیم وغیرہ کے معاملات سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان میں موجود چینیوں کو کھانے ، اپنے حقیقی چینی مصالہ جات کی فراہمی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو کہ فوری طور پر حل طلب ہے تا کہ چینی پاکستان آتے ہوئے ان مسائل سے بے نیاز ہوں۔اسکے ساتھ ساتھ چینیوں کی پاکستان میں سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ مہمان کا تحفظ قومی وقار کا اہم ترین جزو ہوتا ہے ۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان ریلوے میں انقلابی نوعیت کا منصوبہ ایم ایل ون ، جو بد قسمتی سے ابھی شروع نہیں ہو سکا، پر سبک رفتاری سےکام ہونا چاہئے،اس پر بہت بڑی پیش رفت دیکھنے کو ملی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ گوادر کی بندرگاه کی اپ گریڈیشن پر بھی دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے بہت اہمیت کا حامل ہے اور اب ضرورت اس کی ہے کہ ان دونوں منصوبوں کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دورکیاجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بی آر آئی ، کان کنی ، انڈسٹری گرین پراجیکٹس ، انفرا اسٹرکچر ، چین کو زرعی اجناس کی ایکسپورٹس میں اضافہ کرنے کے حوالے سے جو بیس ایم او یوز پر دستخط کئے گئے ہیں ان پر بھی بہت زور و شور سے کام ہونا چاہئے ۔ پاکستان میں ،ابھی حال ہی میں چین سے تجارت کو بڑھانے کے حوالے سے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا گیا ہے جس کی بہت عرصے سے اور خاص طور پر سی پیک کے افتتاح کے بعد سے بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی ۔ پیپلز بینک آف چائنہ نے انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنہ کو پاکستان میں چینی كرنسی آر ایم بی کا کلیئرنگ ایجنٹ مقرر کیا ہے اور آر ایم بی کلیئرنگ بینک کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔ یہ دونوں ممالک کے کارو باری حضرات کی دیرینہ خواہش تھی کہ باہمی تجارت کو چینی كرنسی میں کرنے کی سہولت موجود ہونی چاہئے ۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ پاکستان نے یہ قدم اٹھانے سے قبل اس پر گہری سوچ و بچارکی اور یہ دیکھا کہ پاکستان کے كرنسی ریگولیٹری منظر نامے میں چینی كرنسی اسی مقام پر کھڑی ہے کہ جس مقام پر امریکی ڈالر یا دوسری اہم كرنسیاں موجود ہیں؟ اسی وجہ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے چینی كرنسی کے استعمال کو سہل بنانے کی غرض سے ایک ریگولیٹری فریم ورک بھی قائم کردیا ہے ۔ اس ریگولیٹری فریم ورک کی بدولت سرکاری اور نجی شعبوں کو آر ایم بی میں ایل سی کھولنے میں بہت آسانی ہو گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ چینی كرنسی میں فنانسنگ کی بھی سہولت ميسر آگئی ہے ۔ سرکاری اور نجی، دونوں شعبوں کو چینی كرنسی کے کاروباری استعمال میں بہت آسانی مہیا ہو گئی ہے ۔ یہ بات واضح طور پر سامنے آ چکی ہے کہ اگر دونوں ممالک کی کاروباری برادری باہمی تجارت میں چینی كرنسی کا استعمال کرے تو نہ صرف وقت کی بچت ہوگی بلکہ مصنوعات کی تیاری میں لاگت بھی کم ہوگی اور اس طرح صارفین کو کم قیمت پر اشیا فراہم کرنا ممکن ہو گا ۔ ویسے دونوں ممالک کے درمیان آر ایم بی کے استعمال کے بڑھنے کے واضح اعداد و شمار بھی سامنے آ رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر 2018 تک درامدات کیلئے آر ایم بی کا استعمال محض دو فیصد تھا مگر دو ہزار بائیس تک یہ کم و بیش اٹھارہ فیصد تک پہنچ گیا ہے ۔ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے ۔ مثال کے طور پر پاکستان سے بڑے پیمانے پر گوشت چین کو ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے ، اسی طرح زرعی مصنوعات کی بہت بڑی كھپت چین میں ممکن ہے ۔ چین کے ساتھ ملکر زرعی شعبے میں کام ہو رہا ہے مگر اعلیٰ سطح کے بیجوں کی افزائش ، فوڈ پراسیسنگ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل تعلیم کے شعبوں میں ابھی مزید باہمی تعاون کی ضرورت ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں