ان دنوں ہمارے قومی میڈیا میں امریکی سازشی بیانیے کی شہرت رکھنے والا سائفر اسکینڈل یا ڈرامہ ایک مرتبہ پھر پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ درویش جب بھی کچھ لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کی تمنا ہوتی ہے کہ ایسی تحریر لکھے جو صدیوں بعد بھی پڑھے جانے کے قابل ہو لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی اخبار یا اشاعتی ادارے کے لیے لکھتا ہے تو اُسے اپنی پسند ناپسند کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ متعلقہ ادارہ جو ادائیگی بھی کررہا ہے وہ آپ سے کیا توقع رکھتا ہے علاوہ ازیں اخبار یا ادارے کے قارئین کیا پڑھنا چاہتے ہیں۔
فی زمانہ ہمارے میڈیا کا چلن یہ ہے کہ ایسی باتیں کرو جو لمحۂ حاضر میں کراری یا مصالحے دار لگ رہی ہوں چاہے اگلے ہی ہفتے یا دن وہ ٹکے کی نہ رہیں، سوری ٹکا تو پھر بھی شیخ حسینہ صا حبہ نے ویلیو ایبل بنادیا ہے کہنا یہ تھا کہ پاکستانی روپے کے برابر بھی نہ رہیں ،ہوا میں تحلیل ہوں یا ردی کی ٹوکری میں چلی جائیں یا جعلی و جھوٹی ثابت ہوجائیں صحافت کے تعلی سازوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتی ان بھڑک بازوں کا مدعا لمحۂ موجود میں میلا لوٹ کر پورا ہوجاتا ہے شاید کریڈیبیلٹی بھی آؤٹ ڈیٹڈ چیز ہوچکی ہے یوں صحافتی حافظہ قومی حافظے کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے۔
اگر یہ بات نہ ہوتی تو آج ہم سائفر نامی کسی امریکی بیانیے سکینڈل یا ڈرامے کو زیر بحث لانے پر مجبور نہ ہوتے اور نہ ہی کسی ستر سالہ کھلنڈرے نوجوان کو کوچۂ صحافت سے میراث پنا کرتے کارکنان دستیاب ہوپاتے۔ ہمارا یہ وتیرہ کوئی دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی بلکہ زیادہ سچائی کے ساتھ پون صدی کا قصہ ہے جس کی برکت سے ہم ہٹلر مائند جاہ پرست مغرور، حکمرانی کے بھوکے کھلنڈروں یا ڈراموں کو اقتدار کے سنگھاسن پر لابٹھاتے ہیں بلاشبہ پلاننگ ایسٹیبلشمنٹ کی ہوتی ہے مگر الۂ کار تو ہمارے نعرے باز ہی بنتے ہیں نا۔
آج اعظم تارڑ میڈیا کو یہ بتا رہا ہے کہ اعظم خان نے مجسٹریٹ کے سامنے جو اقبالی بیان دیا ہے اس پر تیس مار خان کو اتنے برس سزا ہوسکتی ہے۔ یہ جتنے بھی اعظم ہوتے ہیں باتیں ہمیشہ بڑی بڑی کرتے ہیں لیکن نکلتا ان سےککھ نہیں، پہلے ہی ایک اعظم بھائی نے ہمیں لکھ سے ککھ بنا کر چکر دیتے ہوئے ایسے پھینکا کہ ہم ٹکا ٹوکری ہو چکے ہیں۔ اس اعظم جٹ نے پہلے بھی بڑی بڑی چھوڑتے ہوئے سخت مایوس کیا ہے ہمیں کیا پوری پارلیمینٹ کو ایک غیر منتخب و غیر نمائندہ شخص کے سامنے بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔
ویسے سزا ہو نہ ہو یہ تو عدالتوں پر منحصر ہے۔ جہاں ملزمان کو دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ آپ کی تشریف آوری پر ہمیں خوشی ہوئی ہے پھر کب آئیں گے ہم انتظار کریں گے ایسے ماحول میں سزاؤں کے شوشے چھوڑنا بھی ایک طرح سے دل لگی کی بات ہے لیکن مجسٹریٹ کے سامنے جو بات یا اقبال ِ جرم سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے ننگے لفظوں میں کیا ہے وہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ آپ نے سائفر کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزرات عظمیٰ کی کرسی پر براجمان شخص نے اپنی حکومت بچانے کے لئے ایسا جھوٹا اور بے نبیاد بیانیہ بنایا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں سائفر کو غلط رنگ دے کر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا۔ اس نے اس سازش میں کابینہ کوبھی شامل کیا اور میرے منع کرنے کے باوجود اس آفیشل سیکرٹ کو خط کی صورت عوام میں لہرایا۔ یہ ڈرامہ پری پلانڈ تھا چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ سائفر 9مارچ کو مجھ سے لے لیا اور بعد میں کہا کہ مجھ سے گُم ہوگیا ہے جو کہ سراسر خلاف قانون ہے۔
اس پر خود تیس مار خان کا ردعمل یہ سامنے آیا کہ ’’میں نہیں مانتا کیونکہ اعظم خان ایک ایماندار آدمی ہے جب تک اس کے منہ سے ایسی بات میں خود نہیں سن لیتا میں اس نوع کے بیان کو نہیں مانوں گا۔ یہ بھی کہا کہ میں سوشل میڈیا کے ذریعے اس ڈرامے کی بہت سی باتیں عوام کے سامنے لاؤں گا اور میرے کارکنو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ تفصیلات جب میں سامنے لاؤں گا تو وہ ٹیلی ویژن پر چلنے والے کسی بھی ڈرامے سے بڑھ کر دلچسپ اور سحر انگیز ہوں گی‘‘۔
اپنے محبوب کھلاڑی مرد مجاہد، طالبان خان کی خدمت میں یہ گزارش ہے کہ اب آپ مزید کیا تفصیلات سامنے لائیں گے۔ آپ نے تو جو ڈرامہ یا کٹی کٹا نکالنا تھا وہ نکال چکے، آپ تو دعائیں دیں بابا رحمتا اینڈ کمپنی کو جن کی برکت سے تاحال جیل یاترا سے بچے ہوئے ہیں، رہ گیا سائفر ڈرامہ، اس سے تو اب آپ خود یوٹرن لے چکے ہیں اور کئی پینترے بدل چکے ہیں جبکہ ناچیز جیسے بہت سے لوگوں نے اسی مارچ میں اس کی قلعی کھول دی تھی۔ تبھی کی بات ہے جب آپ نے کہا تھا کہ میں اس سائفر کے ساتھ کھیلوں گا تو درویش نے امریکا میں تب کے پاکستانی سفیر ڈاکٹراسد مجید خاں کو فون کیا۔ جو باریک بین اور زیرک انسان ہیں اور درویش کی ان سے دوستی لاء کالج کے زمانہ طالبعلمی سے ہے وہ ناچیز کے سوال پر ہنسے اور بولے ریحان صاحب آپ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپ کے خان صاحب کس کس سے نہیں کھیل رہے ہیں؟
اب یہ ساری روئیداد کوئی راز نہیں رہی۔ امریکی ترجمان بھی بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم کتنی مرتبہ اس کی تردید کریں، سرے سے ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ اسد صاحب کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ ایک روٹین کاسائفر تھا۔ امریکی ترجمان کو اگر اردو شاعری سے شغف ہوتا تو ضرور یہ شعرپڑھتے۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
درویش کی ناگواری بات کا بتنگڑ بنانے والے تیس مار خان سے بھی زیادہ ان طاقتور منصوبہ سازوں سے ہے جنہوں نے شغل شغل میں یا اپنی ایکسٹنشن کی خاطر ایک اناڑی کو میدان سیاست میں اتار کر کروڑوں غریب عوام کا کچومر نکال دیا اور دوسری شکایت اپنے ان صحافتی دوستوں سے ہے جو آج بھی سب کچھ واضح ہونے کے باوجود جناح ثالث کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔
