مجھے اروند کیجریوال نے ہمیشہ متاثر کیا۔ کیجریوال کے شروع کیئے گئے خدمت کے منصوبے نہ صرف متاثر کن ہیں بلکہ حیران کن ہیں۔ ہریانہ میں پیدا ہونے والے اروند کیجریوال آئی سی ایس کرنے کے بعد ٹیکس افسر بنے پھر استعفیٰ دیا اور دہلی کی ریاست سے سیاست کا آغاز کیا، دلی والوں کے دل جیتنے کے بعد انہوں نے پنجاب کا رخ کیا، اب وہ پنجاب کے کسانوں کا دل جیت رہے ہیں۔ آج ہر بھارتی ریاست کے باشندے خواہش مند ہیں کہ ان کے ہاں کیجریوال آئے۔ میرے من میں ہمیشہ یہ آرزو مچلتی رہی کہ کاش کوئی ہمارا سیاستدان کیجریوال سے سبق سیکھ لے۔ سیاستدانوں سے گفتگو بھی ہوئی مگر شاید ہمارے سیاستدان عوامی خدمت سے گریزاں ہیں۔ دو روز کے لئے گلگت بلتستان گیا تو احساس ہوا کہ شاید یہاں کوئی کیجریوال آن بسا ہے۔ سماجی زندگی خاص طور پر تعلیم اور صحت کے شعبے میں اصلاحات دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ لوگوں سے پوچھا، یہ عمدہ کام کون سا سیاستدان کر رہا ہے؟ لوگ بولے، سیاستدان نہیں چیف سیکرٹری۔ میں نے چیف سیکرٹری کا نام پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کا نام محی الدین وانی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ گلگت بلتستان کے غریب علاقوں کے 60 سے زائد پرائمری سکولوں میں دوپہر کا کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ سال کے آخر تک ریجن کے تمام سکولوں میں یہ سہولت میسر ہو گی۔ اس اقدام سے سرکاری سکولوں میں داخلے کی شرح میں ستر سے نوے فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ 200 سے زائد سکولوں میں “ٹیک فیلو” پروگرام شروع کیا گیا ہے، ان میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی، کمپیوٹر اور انٹرپرنیور میں مہارت رکھنے والے اساتذہ نوجوانوں کا مستقبل سنوار رہے ہیں۔ جی بی کے مختلف اضلاع میں 34 سکولوں کو سمارٹ سکول میں تبدیل کر کے جدید تعلیم و تحقیق میں رہنمائی کی جا رہی ہے، ان سکولوں میں کلاس رومز کو سٹیٹ آف دی آرٹ اور جدید آلات سے لیس کیا گیا ہے۔ 200 سکولوں میں ایل ای ڈی، سمارٹ سکرینز، کروم بکس اور بیک اپ کی سہولت سے آراستہ سولر کے علاوہ، آن لائن اور آف لائن لرننگ مینجمنٹ نظام کو اگلے چار مہینوں میں فعال کر دیا جائے گا۔ سیلاب سے متاثرہ علاقے میں 55 سے زائد تعلیمی اداروں میں پری فیبریکیٹڈ کلاس رومز بنائے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ طلباء کو پیشہ ورانہ رہنمائی کے لئے جولائی میں پاکستان کے 12 سرکردہ نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کے اشتراک سے سمر فیسٹا منعقد کیا گیا ۔ ماہرین سے 28 ہزار طلباء مستفید ہوئے۔ جی بی حکومت نے مربوط مسابقتی عمل کے ذریعے لمز، نالج پلیٹ فارم، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور آغا خان یونیورسٹی کی معاونت سے ایک ہزار ایجوکیشن فیلوز کی خدمات حاصل کیں۔ حیرت ہے گلگت بلتستان میں فنانشل لٹریسی ایجوکیشن بھی شروع کی گئی ہے۔ 2 اداروں کے تعاون سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس کے نصاب کے مطابق نوجوانوں کو مالیات کے بنیادی اصولوں سے آگاہی دی جا رہی ہے۔ خطے میں 184 آئی ٹی لیبارٹریوں کو شمسی توانائی سے منسلک کیا جا چکا ہے۔ KIPS کے تعاون سے مفت کوچنگ اور ٹیوشن فراہم کی جارہی ہے۔ ملک کی 15 بہترین یونیورسٹیوں میں داخلے اور دیگر اخراجات کے لئے قرض فراہم کیئے جا رہے ہیں۔ خواتین اور طالبات کے مفت اور محفوظ سفر کے لئے پنک بس سروس شروع کی گئی ہے، یہ بسیں صبح 6 سے رات 9 بجے تک خدمات انجام دیتی ہیں۔ گلگت میں نیشنل کالج آف آرٹس کے کیمپس کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ محض سہولت کی خاطر ملک کی بڑی جامعات میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ سینٹر قائم کیئے گئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے علوم کے لئے NUST سے خطے کے 600 طلباء مستفید ہو رہے ہیں۔ سکولوں میں میکرا سپیس لیب بنائی گئی ہیں۔ ابلاغی مہارت کے لئے پبلک سپیکنگ پروگرام شروع کیئے گئے ہیں، طلباء کے علاوہ اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے لئے خصوصی اقدامات کیئے گئے ہیں۔ صحت کے میدان میں بہت کچھ نظر آیا مگر یہاں صرف ایک ہسپتال کا تذکرہ کروں گا۔ گلگت بلتستان میں 50 بیڈز کا کارڈیک ہسپتال بن چکا ہے جہاں جدید ترین سہولیات موجود ہیں۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر ایک چیف سیکرٹری ایسے انقلابی کام کر سکتا ہے تو پھر باقی چیف سیکرٹری بھی یہ کر سکتے ہیں مگر اس کے لئے پاکستان کو پانچ چھ ایسے افسران چاہیئں جو خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں، جن کے سینے میں کچھ کرنے کی تڑپ ہو۔ نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
