پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ کمال حاصل ہے کہ سندھ میں بدترین حالات میں بھی اس سے عوامی حمایت کوئی نہ چھین سکا۔ پی پی پی کو 17 نشستوں تک محدود کیا گیا تو بھی عوام میں اس جماعت کی حمایت کم نہ ہوسکی۔ ضیاءالحق نے اس جماعت کو توڑنے کے لیے قوم پرستوں پر بھی ہاتھ رکھا اور وہ بھی پ پ کے خلاف استعمال کئے گئے ساتھ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے غبارے میں بھی ہوا بھری لیکن غبارے تو ایک سوئی کی مار ہوتے ہیں ادھر سوئی زرہ سی غبارے پر لگی ادھر غبارہ پھس یہ ہی ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا کہ تھوڑی سی سختی ہوئی اور ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھر گیا۔ لیکن پی پی پی کے کارکن تو پھانسی گھاٹ چڑھائے گئے، کوڑے مارے گئے اور ملک بدر کیا گیا، مرد تو مرد عورتوں کو بھی کوڑے مارے گئے، ان کے رہنماوں کو قتل کیا جاتا رہا ان کے ورکرز کے لیے زمین تنگ کی گئی، نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کو استمعال کر کے بینظیر بھٹو شہید کو انتقام کا بشانہ بنایا جاتا رہا یہ ہی نہیں آصف علی زرداری نے اپنی زندگی کی قیمتی گیارہ سال جیل میں رہے کر گزارے مگر آصف علی زرداری شہید بھٹو کا داماد تھا تو پی پی پی کے ورکر شہید بی بی کے سپاہی نہ کوئی ورکر ٹوٹا نہ کوئی رہنما پیپلز پارٹی تمام تر ریاستی پروپیگنڈوں اور الزامات سمیت ریاستی تشدد کے باوجود چٹان کی طرح کھڑی ہے۔ مگر الیکشن جب جب ہوتے ہیں تو سندھ میں پیپپز پارٹی کو دبانے کے لیے ایم کیو ایم، ن لیگ، جی ڈے اے، فنگشنل لیگ، قوم پرست سمیت تمام مخالفین پیپلز پارٹی کے خلاف ایک اتحاد بنا کر الیکشن میں کودتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح عوام ایسے اتحادوں کی ایسی کی تیسی کردیتی ہے مگر پھر بھی نہ جانے کیوں یہ اتحاد بنتے ہیں جب انھیں معلوم ہے کہ سندھی دانشوروں اور سندھی ووٹرز کا شعور اس بات پر متقفق ہے کہ پیپلز پارٹی تمام تر اپنی اندر برائیوں کے باوجود سندھ کا مقدمہ لڑتی ہے اور سندھی عوام کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ سندھ کے عوام کو یہ یقین ہے کہ پیپلز پارٹی ہی ایک جماعت ہے جو پاکستان میں اقتدار آتی ہی تو ان کے حقوق کا تحفظ کر سکتی ہے ، انھیں پیپلز پارٹی سے شکوے بھی ہیں مگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پی پی پی اپنی تمام برائیوں کے باوجود باقی جماعتوں سے بہتر ہے۔ یہ ہی وجہ کہ پی پی پی کے خلاف تمام اتحاد شکست کھاتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں پی پی پی کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ ایک بار پھر سندھ میں ان کے خلاف سازش کی جارہی ہے اور پی پی پی مخلاف بلاک کھڑا کیا جارہا ہے تو بلاول بھٹو زرداری نے فوری طور پر عوامی رائے اور عوامی مہم کا آغاز کردیا وہ کراچی سے پنجاب براستہ جہاز نہیں بلکہ سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے پہنچے، جہاں سندھ کے ہر شہر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ان کا استتقال کیا، ہر شہر میں خواتین اور بچے ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے اور پھر آصفہ بھٹو زرداری بھی اس قافلے میں شریک ہوگئیں جس سے سندھ کے شہریوں کا ایک بار پھر شہید بی بی کی جھلک دیکھنے کو موقعہ ملا، پی پی پی نے بغیر اعلان کیے یہ دورے شروع کیے اور ان کے نتائج اس وقت پی پی پی مخالفین کو پریشان کیے ہوئے ہیں کیوں کہ سندھ کے شہروں میں آصف اور بلاول کی جگہ جگہ موجودگی نے عوامی حمایت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے اس دورے کے بعد پی پی پی مخلاف بلاک کے مقامی رہنما جو ہمیشہ پیپلز پارٹی مخالف رپے ہیں وہ بھی پی پی پی کے ساتھ رابطے کرنا شروع ہوگئے ہیں، میں یہ پورے یقین سے لکھ رہا ہوں کہ بلاول بھٹو زرداری کے اس دورے کے بعد سندھ میں نئی ہونے والی حلقہ بندیوں میں پی پی پی کو ووٹ تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی جس سے نقصان پی پی پی کا نہیں بلکہ سندھ کا ہوگا کیوں کہ عوام مینڈت کو تقسیم کرنے والے ہمیشہ سندھ اور پاکستان کا نقصان کرتے آئے ہیں کیوں کہ پی پی پی تو کل بھی موجود تھی اور آج بھی موجود ہے مگر ملک سیاسی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوچکا ہے جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔
