مرزا خادم حسین جرال

آزادجموں و کشمیر میں عوامی خدمات بہتر بنانے کی ضرورت

پہلی قسط

منگلا ڈیم اورنیلم جہلم جیسے بڑے منصوبوں سمیت دیگر ہائیڈل پاور منصوبوں سے پینتیس سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے باوجود آزاد کشمیر اکثر اندھیروں میں غرق رہتا ہے۔ حال آںکہ کشمیر کی کل بجلی کی کھپت 350 میگاواٹ ہے۔ آزاد کشمیر میں قائم بجلی کے منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی پہلے نیشنل گرڈ آف پاکستان میں پہنچائی جاتی ہے اور پھر 2.59 روپے فی یونٹ کے حساب سے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت سمیت مختلف تقسیم کار کمپنیوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم مقامی حکومت شہریوں کو یہ بجلی 20 سے 60 روپے فی یونٹ کے نرخوں پر فراہم کرتی ہے۔ اس طرح عام صارفین پر بے پناہ مالی بوجھ پڑ جاتا ہے۔
آزاد کشمیر میں پیدا ہونے وای بجلی کا ریاست کے شہریوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حال آںکہ اس کے لیے آزاد کشمیر کے دو شہروں کو متاثر کِیا گیا۔ میرپور شہر کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ اس کی تاریخ، تہذیب و ثقافت سب کو ڈیم برد کرتے وقت بڑے بڑے اعلانات اور وعدے کیے گئے کہ آزاد کشمیر کو بجلی مفت دی جائے گی، نیو میرپور کو دنیا کا جدید شہر بنایا جائے گا۔ لیکن آج تک کسی بھی اعلان، وعدے یا معاہدہ پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ سب عملی طور پر جھوٹ ثابت ہوا۔
شہریوں کی مرضی و منشا کے بغیر لاکھوں سالوں سے بہنے والے نیلم اور جہلم کا رخ تبدیل کر دیا گیا۔ آج مظفرآباد شہر کے لاکھوں شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ موسمی تبدیلی کی وجہ سے درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ آزاد کشمیر میں پن بجلی کے جاری پراجیکٹ مکمل ہونے کے بعد یہاں بجلی کی پیداوار قریباً پانچ ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر جائے گی۔ مروّجہ اصول کے تحت ریاست میںپیدا ہونے والی بجلی پر یہاں کے باسیوں کا حقِ ملکیت ہے۔ آزاد کشمیر نیشنل گرڈ سٹیشن کا قیام عمل میں لا کر واپڈا یا دیگر کسی بھی ادارے کو بجلی فروخت کی جائے۔ اس سے جو آمدن ہو وہ آزاد کشمیر کے شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔ آزاد کشمیر میں آٹے سمیت قریباً چھپن اشیاے خور و نوش پر یو این او کی طرف سے سبسڈی دی گئی، بعدازیں جو حکمرانوں نے منسوخ کر دی۔ بڑی تعداد میں شہری دو وقت کی روٹی کے لیے کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ان سے ہتک آمیز رویہ معمول بن چکا ہے۔ کئی شہری آٹا لیے بغیر خالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح کٹھ پتلی سرکار کی عیاشیوں پر ہر سال اربوں کے اخراجات اٹھتے ہیں، جو غیر ضروری ہیں۔ ان عیاشیوں پر پابندی لگائی جائے۔ اور یہ اربوں روپے بھی شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جائیں۔ اِن تمام ناانصافیوں کی وجہ سے آخرکار ایک جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی وجود میں آ چکی ہے، اور ابتدائی طور پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے مفت بجلی کا مطالبہ کِیا ہے۔ حکومتی اداروں کی کمزور اور ناعاقبت اندیشانہ حکمتِ عملی کی وجہ سے یہ تحریک زور پکڑ چکی ہے۔ گو کہ اسے مین سٹریم میڈیا نے حکومتی رویہ کے پیشِ نظر اہمیت نہیں دی، مگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مدد سے کشمیریوں نے پانچ اگست، اکتیس ستمبر اور پانچ اکتوبر کو نیلم ویلی سے لے کر بھمبر اور بھمبر سے کوٹلی تک تاریخی ہڑتالیں کر کے ثابت کِیا کہ اب عوامی تحریک روایتی میڈیا کی محتاج نہیں رہی۔ یہ ایسی مؤثر ہڑتالیں تھیں جن کی آزاد کشمیر کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ علامتی طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کی خاطر بعض مقامات پر لوگوں نے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے احتجاجی دھرنا کیمپوں میں جاکر بجلی کے بلوں کو آگ لگائی۔ مظفرآباد میں لوگوں کی بڑی تعداد نے بجلی کے بل دریاے جہلم میں پھینک دیے۔ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے کچھ عوامی مطالبات جیسے کہ آٹے کی سبسڈی کو بحال کرنے اور مقررہ تاریخ کے بعد بجلی کے بل پر جرمانے معاف کرنے کا اعلان بھی کِیا تاہم یہ اقدامات عوامی غصے کو کم نہ کرسکے۔
عوامی ایکشن کمیٹی ترجیحی بنیادوں پر آزاد کشمیر کو بجلی فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کلیدی مطالبہ یہ ہے کہ نیشنل گرڈ کو بجلی فراہم کرنے سے پہلے مقامی شہریوں کو بجلی فراہم کی جائے۔ اس مطالبہ کو تقویت دینے کے لیے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 161، شق 2 میں کہا گیا ہے کہ ’’وفاقی حکومت کی طرف سے کمایا جانے والا خالص منافع، یا وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ یا زیر انتظام کسی ہائیڈرو الیکٹرک سٹیشن پر بجلی کی پیداوار سے حاصل ہونے والا خالص منافع اس صوبے کو ادا کِیا جائے گا، جس میں ہائیڈرو الیکٹرک سٹیشن واقع ہے‘‘۔ یہ آئینی شق مقامی لوگوں کے قدرتی وسائل کے استعمال کے بنیادی حق کو تسلیم کرتی ہے۔
اس تناظر میں عوامی ایکشن کمیٹی نے واپڈا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے اندر قائم ہائیڈل منصوبوں سے پیداواری لاگت پر مقامی صارفین کو بجلی فراہم کرے۔ اور آزاد کشمیر کو لوڈ شیڈنگ سے پاک زون قرار دیا جائے۔ ان مطالبات کے علاوہ، مظفرآباد اور میرپور کے شہریوں کو واپڈا اور آزاد کشمیر کی حکومت دونوں سے متعدد شکایات ہیں۔ نیلم، جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ ایک رن آف دی ریور ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ ہے۔ وعدوں اور معاہدوں کے باوجود میرپور شہر کو اسلام گڑھ سے ملانے والا، منگلا ڈیم کے ریزر وائر چینل پر تعمیر ہونے والا قریباً 5 کلومیٹر طویل راٹھوہ ہریام پل ہنوز نامکمل ہے۔ میرپور شہر منگلا ڈیم جھیل کے کنارے آباد ہونے کے باوجود پینے اور آبپاشی کے پانی کے لیے ترس رہا ہے۔ ان غیر حل شدہ مسائل نے مقامی آبادی کے عدم اطمینان اور شکایات میں کئی گنا اضافہ کِیا ہے۔ غصہ نکالنے کا موقع اب عوام کو ملا ہے جو انھوں نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کِیا۔
آزاد جموں و کشمیر کے مختلف شہروںمیں عوام اور تاجروں کے احتجاج پر پولیس کی کارروائیوں میں حالیہ اضافہ فوری توجہ اور احتیاط سے غور کرنے کا متقاضی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ گاڑی نکل جائے اور بجلی کے بلوں کی عوامی تحریک کو کوئی اور لے اُڑے اور ناتجربہ کار اور ناعاقبت اندیش سرکار ہاتھ ملتی رہ جائے اور لنگی والے ملنگ کے مصداق سب کچھ لٹا کر اپنی لنگی سمیٹ کر نکلتے نظر آئیں۔ یہ واقعات عوام میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کی ایک واضح یاد دہانی ہیں۔ ایک طرف عوام اپنے بنیادی حقوق سے محرومی کی دُہائی دے رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو پکڑدھکڑ اور تشدد سے خاموش کروا رہی ہے۔
وطنِ عزیز میں ایک طرف عوام اپنے بنیادی حقوق، یعنی اقتصادی آزادی، روزگار، تعلیم، آزادانہ انتخابات، جمہوریت اور اسلامی نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری طرفحکومتیں انتظامی بدنظمی، دھونس، دھاندلی، فرقہ واریت، لوٹ مار، سیاسی بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں