‏تجھے رسوائی کا ڈر ہے نہ آیا کر

‏تجھے رسوائی کا ڈر ہے نہ آیا کر
بچھڑ جانا ہی بہتر ہے نہ آیا کر

کسی شاداب قریے میں بسا خود کو
یہ دل اجڑا ہوا گھر ہے نہ آیا کر

میرا دُکھ اک دن تجھ کو بھی ڈبو دیگا
بُہت گہرا سمندر ہے نہ آیا کر

گزر جا آئینے جیسا بدن لے کر
یہاں ہر آنکھ پتھر ہے نہ آیا کر

گزرتے ابر کی بھیگی ہوئی بخشش
زمین صدیوں سے بنجر ہے نہ آیا کر

پلٹ جا اجنبی وھموں کے جنگل سے
یہ پر اسرار منظر ہے نہ آیا کر

بکھرتی ریت کیا ڈھانپے گی سر تیرا
وہ خود بوسیدہ چادر ہے نہ آیا کر

خوشی کے رت میں محسن کو منا لینا
یہ فصل دیدہ تر ہے نہ آیا کر

محسن نقوی

اپنا تبصرہ بھیجیں