yasir peerzada

مس پاکستان حرام، مسٹر پاکستان حلال؟

کہتے ہیں کہ جب بغداد پر حملہ ہوا تو اُس وقت علمائے کرام یہ بحث کرنے میں مصروف تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔’کہتے ہیں ‘ میں نے اِس لیے لکھا کہ اِس واقعے کی صحت پر مجھے شبہ ہے لیکن اگر اِس واقعے کو ڈینگی بھی ہے تو کام چل جائے گا کیونکہ یہ واقعہ اب ضرب المثل بن چکا ہے اور محض اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی غرض سے سنایا جاتاہے۔سقوط بغداد کو آٹھ سو سال گزر گئے مگر ہم وہیں کھڑے ہیں،آج بھی ہمارے علما، لکھاری اوردانشور وہی لکیر پِیٹ رہے ہیں، ہم یہ تعین ہی نہیں کر سکے کہ ہمارے اصل مسائل کیا ہیں، حل تو بہت بعد کی بات ہے ۔ایک تازہ مثال دیکھ لیں۔پانچ پاکستانی خواتین کو عالمی مقابلہ حسن میں شرکت کیلئےنامزد کیا گیا ، اُن میں سے ایریکا روبن نامی خاتون مِس پاکستان منتخب ہوئیں اور اب وہ ال سلویڈورمیں عالمی مقابلے میں شرکت کریں گی۔اِس پر ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی نے ٹویٹ کیا کہ’’ پانچ دوشیزائیں عالمی مقابلہ حسن میں پاکستان کی ’نمائندگی‘ كرينگی اگر یہ سچ ہے تو ہم کہاں تک نیچے کرینگے؟ حکومت اس خبر کا فوری نوٹس لیکر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے اور کم ازکم ملک کی ’نمائندگی‘ کا تاثر زائل کرے۔‘‘
اصول کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو آئین اور قانون کے مطابق اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے ، مفتی صاحب چونکہ پاکستان کے شہری ہیں اِس لیے انہیں بھی پورا حق ہے کہ وہ اپنانقطہ نظر رکھیں اور اسے لوگوں کے سامنے پیش کریں۔تاہم یاد رہے کہ یہ وہی آئین ہے جو ہر شہری کو اپنی مرضی سے جینے کا حق دیتا ہے ۔اب اگر اپنی مرضی سے اِس حق کو استعمال کرکے کچھ خواتین عالمی مقابلے حسن میں شرکت کی متمنی ہیں تو اِس میں مفتی صاحب، میں یاکوئی بھی اور شخص کیوں کر معترض ہوسکتا ہے؟ اِس کا جواب یہ آئے گا کہ کسی کو کھلی چھٹی نہیں دی جاسکتی کہ وہ اِس قسم کی حیا باختہ سرگرمیوں میں حصہ لے کر ملک کا نام بدنام کرے۔یہ منطق عجیب ہے۔ اِس ملک کے طول و عرض میں تن سازی کے مقابلے ہوتے ہیں، مرد باڈی بلڈر بالشت بھر کا جانگیہ پہن کر اُن میں حصہ لیتے ہیں ، میڈیا پر اُن کی خبریں چلائی جاتی ہیں، مگر یہ مقابلے کبھی ہمارے مفتیان ِ کرام کو نہیں کھٹکے، کیوں؟ اِس لیے کہ اِن مقابلوں میں مرد حصہ لیتے ہیں ، حالانکہ اسلام میں ستر پوشی کا جو معیار مردوں کیلئے مقرر ہے، اِن مقابلوں میں اُس کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔کسی عالم دین، مفتی یا لکھاری نےاِس کے بارے میں مضمون نہیں لکھا ، ٹویٹ نہیں کی اور اعتراض نہیں جڑا ، کیوں؟ اِس لیے کہ ہم عورتوں اور مردوں کو برابر ہی نہیں سمجھتے اور یہی اصل مسئلے کی جڑ ہے ۔ہمارے نزدیک مس پاکستان حرام ہے مگر مسٹر پاکستان حلال ہے۔ہم زبانی کلامی تو عورتوں اور مردوں کی برابری کی باتیں کرتے ہیں مگر عملاً عورت کو کمتر ہی سمجھتے ہیں ۔اگر مسئلہ سترپوشی کاہوتا تو ہمارے علما اور مفتیان ِکرام باڈی بلڈنگ اور کبڈی کے مقابلوں میں مردوں کی سترپوشی کو یقینی بنانے کی بات بھی کرتے مگر انہیں یہ معیوب نہیں لگتا ۔دوسری طرف،عالمی مقابلہ حسن ال سلویڈور میں منعقد ہوگا اور اتفاق سے اُس میں جو پاکستانی خاتون شرکت کر رہی ہے وہ غیر مسلم ہے ، اِس سے ہمارے مفتیان کرام کا کیا لینا دینا؟ اوہ اچھا، پاکستان کی بد نامی ہوگی۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔لیکن عجیب بات ہے کہ پاکستان کی بدنامی اُس وقت نہیں ہوتی جب کسی مدرسے میں طالب علم کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آتاہے ،پاکستان کی بدنامی اُس وقت نہیں ہوتی جب یہاں مسیحی برادری کے گھر اور گرجے نذر ِ آتش کیے جاتے ہیں ،پاکستان کی بدنامی اُس وقت نہیں ہوتی جب ہم گلی گلی کشکول لے کر گھومتے ہیں،پاکستان کی بدنامی اُس وقت نہیں ہوتی جب یہاں اقلیتوں کی قبروں سے کتبے اکھاڑے جاتے ہیں…اُس وقت ٹویٹس میں کیا کہا جاتا ہے!
لیکن میں واقعی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ چند خواتین کے مقابلہ حسن میں شرکت کرنے سے پاکستان کی بدنامی کیسے ہوگی؟ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ حرکت شعار ِ اسلام کے منافی ہے یا ہماری مشرقی اقدار سے میل نہیں کھاتی یا جس انداز میں بکنی پہن کر مقابلہ حسن میں واک کروائی جاتی ہے وہ نہایت بیہودگی ہے ۔ اِن باتوں سے تو میں بھی اتفاق کرتا ہوں بلکہ ایک قدم اور آگے جاکر یہ بھی کہتا ہوں کہ بکنی توکوئی لباس ہی نہیں، جس قسم کا لباس ومبلڈن میں عورتوں کیلئےگزشتہ ڈیڑھ سو سال سے مخصوص تھا وہ بھی قابل اعتراض تھا جسےاب کہیں جا کر2023 میں تبدیل کیا گیا ہے۔لیکن بات پھر وہی ہے کہ اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے کسی مقابلے میں حصہ لیتی ہے تو یہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے ، ہم اُس کے اعمال پر اعتراض کرنے والے کون ہیں؟ رہی بات پاکستان کی بدنامی کی تو چار اسلامی ممالک کے نام سُن لیں، مصر جو تہذیب کا مرکز ہے ، انڈونیشیا ، جو بلحاظ آبادی سب سے بڑا اسلامی ملک ہے، ملائشیا، جس کی ترقی کی مالا جپتے ہوئے ہم نہیں تھکتے اور ترکی، جو ہمارا رول ماڈل ہے ، اِن تمام ممالک میں مقابلہ حسن منعقد ہوتا ہے توکیا یہ اسلامی ملک دنیا میں بدنام ہوچکےہیں؟
آپ اپنا نقطہ نظر رکھیں، اِس کا آپ کو پورا حق ہے ، مگر لوگوں کو یاد دلانا ہماری ذمہ داری ہے کہ ماضی میں آپ نے ملالہ ، طالبان اور افغانستان کی فتح وغیرہ جیسے معاملات پر جو اظہار خیال فرمایا وہ کس حد تک درست ثابت ہوا! اگر وہ تمام باتیں حالیہ تاریخ نے غلط ثابت کردی ہیں تو پھر کیا ضمانت ہے کہ اِس مرتبہ آپ درست فرما رہے ہیں؟
کالم کی دُم: مجھے انداز ہ ہے کہ کچھ لوگ اب بھی وہی راگ الاپیں گے کہ اگر آپ مقابلہ حسن کے حامی ہیں تو اپنی ماں بہن کو اُس میں شرکت کے لیے بھیج دیں۔ اِس ذہنی افلاس اور پستی کا کوئی علاج نہیں کیونکہ اِن لوگوں کو یہ بات سمجھائی ہی نہیں جا سکتی کہ جب آپ اِس سطح کی ’دلیل ‘ دینے پر اتر آتے ہیں تو اِس کا مطلب ہوتا ہےکہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ آخر ہم یہ بات تسلیم کیوں نہیں کرلیتے کہ عورتیں اپنا بھلا برا خود سمجھ سکتی ہیں بالکل اسی طرح جیسے اُن کے بھائی یا بیٹے مسٹر پاکستان بننے کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں