طویل برسوں تک درویش کایہ معمول رہا ہے کہ وہ ہر سال 11اگست کو انگریز کے بنائے ہوئے وسیع ٹائون ہال میں لبرل ہیومن فورم کے تحت بعنوان جناح کا یا قائد کا پاکستان اقلیتوں کے حقوق یا متحدہ قومیت کے تصور کو اجاگر کرنے کیلئے سیمینارز منعقد کرواتا رہا ہے۔جس میں ملک کی نامور سیاسی، صحافتی، مذہبی، ادبی اور اقلیتی شخصیات کو بحیثیت مہمان مقرر مدعو کیا جاتا تھا اور پوری کوشش سے یہ کامیابی حاصل ہوتی تھی کہ کسی ایک نقطہ نظر کی بجائے ورائٹی کے طور پر مختلف نقطہ ہائے نظر کے دانشور و داناتشریف لاتے اور سامعین کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہوتی جس کیلئے تمام دوست احباب سے درخواست کی جاتی ۔
شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی کے علاوہ ہندو، سکھ اور مسیحی برادری کے احباب بھی شرکت کرتے ناچیز کی تو یہی خواہش ہوتی کہ اس میں یہود، بدھ اور احمدی حضرات بھی شریک ہوں مگر بوجوہ ایسے نہ ہوسکا۔افسوس ان تقریبات کی میڈیا کوریج زیادہ نہ ہو سکی شاید اس لئے کہ درویش شخصی طور پر اتنی پسلی نہیں رکھتا تھا کہ قومی میڈیا کو ادھر اینگیج کر سکے۔ ناچیز مغرب اور مغربی میڈیا و تہذیب کا سپاس گزار ہے کہ جن کی برکت سے سوشل میڈیا دنیا میں نمودار ہو گیا ہے یوں عام آدمی کی شنوائی ہونے لگی ہے ورنہ ہمارا پاکستانی روایتی قومی میڈیا طاقتوروں کی طرح اثررسوخ والوں کو ہی انسان سمجھتا رہا ہے۔
ہر سال 11اگست کو یوم اقلیت یا متحدہ پاکستانی قومیت مناتے ہوئے سیمینارز منعقد کروانے کا یہ سلسلہ کوئی ایک دہائی قبل کیوں شروع کیا تھا اور پھر اب کیوں ختم کر دیا ہے اگرتفصیل میں گئے تو سارا کالم اسی کی نذر ہو جائےگا اس لئے اصل موضوع پر رہتے ہوئے بات اپنے اقلیتی بھائیوں کے حقوق پر ہی کی جانی چا ہئے جن کیلئے پاکستان میں رہتے ہوئے اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ بانی پاکستان کی گیارہ اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی اپنی نوعیت کی واحد ومنفرد تقریر کا سہارا یا شیلٹر لیں ۔اس کے علاوہ ان بیچاروں، لاچاروں، قسمت کے ماروں کے پاس کوئی راستہ کوئی چاہ نہیں ہے ۔اس تقریر میں بانی پاکستان کے یہ الفاظ کہ ’’آپ کا جو بھی عقیدہ ہے وہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے اس کا ریاست پاکستان یا اس کے امور و معاملات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا‘‘
یوں سمجھے کہ جناح صاحب کے یہ الفاظ پاکستان میں اقلیتی بدنصیبوں کیلئے امرت دھارا یا ڈوبتے ہوئوں کو تنکے کا سہارا ہیں کیونکہ اس تقریر یا ان الفاظ کے بعد اور تو اور خود جناح صاحب نے بھی پلٹ کر اپنے ان الفاظ کی طرف نہیں دیکھا اور نہ دوبارہ ایسی کوئی غلطی کی کہ مبادا ٹونیشن تھیوری والے انہیں مختلف النوع یوٹرن جیسے طعنے دے سکیں ان کی کسی بھی تقریر پر ایسی بحثیں نہیں چھڑیں جیسی اور جتنی اس 11اگست والی تقریر پر ہوئیں، اسلامی لوگوں کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے جناح نے خود ہی اپنے کئے پر پانی پھیر دیا ہو یہی وجہ ہے کہ مابعد اس مملکت بدنصیب میں بشمول قرار داد مقاصد جتنی بھی قوانین سازی ہوئی وہ اس اکلوتی تقریر کے برعکس ہوئی ۔
درویش نے اپنے متذکرہ بالا سیمینارز میں لاکھ ثابت کرنا چاہا کہ یہ سب کچھ میثاق مدینہ کی مطابقت میں نوزائیدہ مملکت کیلئے اٹل اور ابدی تھا مگر بیشتر راسخ العقیدہ مسلمان علماء و دانشور اپنی ساری توانائیاں یہ ثابت کرنے پر سرف کرتے رہے کہ جناح صاحب کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا جو افضال ریحان صاحب آپ لے رہے ہیں وہ پاکستان کو آپ کی مذموم خواہش کےمطابق ہرگز محض سیکولر یا قومی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے وہ اپنے برسوں پر محیط وعدوں اور تقریروں کی مطابقت میں اسے صرف اور صرف اسلام کی تجربہ گاہ یا اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں اول و آخر قرآن و سنہ کی کارفرمائی ہو
آپ 11اگست کے علاوہ ان کی دیگر تقاریر بھی کبھی پڑھ لیا کریں جن میں وہ پورے زوراور استدلال کے ساتھ پیہم یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ قرآن ہی اس مملکت کے دستور کی بنیاد ہو گا قائد فرماتے ہیں کہ ہمارا آئین تو 14سو برس قبل کابن چکا ہے اور وہ قرآن ہے آپ نہ جانے کن مقاصد کے تحت تقریر کےایک فقرے کو پکڑ کر سارا مشن برباد کر دینا چاہتے ہیں اور تو اور استاد محترم شامی صاحب نے خوب ناراضگی کی یہ کہتے ہوئے کہ کیا آپ ہمارے قائد کو منافق ثابت کرنا چاہتے ہیں جو موچی گیٹ کے عوامی جلسوں میں تو کچھ اور کہتا تھا اور دستور ساز اسمبلی کے فلورپر کچھ اور میرے بچے آپ اس تقریر کے دو دن بعد کے قائد کو ملاحظہ کرو جب لارڈ مائونٹ بیٹن اس خطہ ہند میں رواداری کیلئے مغل شہنشاہ اکبر اعظم کی مثال پیش کرتا ہے تو ہمارا قائد فوراً اسی لمحے اس کی تصحیح کئے دیتا ہے کہ ہمیں تو چودہ سو برس قبل اس سلسلے میں ہمارے پیغمبراسلام ؐ نے سب کچھ بتا دیا تھا ہم ا کبر سے رہنمائی کیوں لیں مجید نظامی صاحب نے بھی اس حوالے سے ناچیز کی درگت خوب بنائی اور کہا کہ آپ ہمارے قائد کا وژن بگاڑ رہے ہیں اور نہ جانے کیوں انہیں اسلامی کی بجائے سیکولر بنانے پر تلے بیٹھے ہیں سو ۔
تنگ آکے میں نے آخر دیروحرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا چھوڑے ترے فسانے
اور پھر ’’میر صاحب کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو
ان نے توقشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا،کب کا ترک اسلام کیا
سو یہ درویش اپنے تمام احباب کی خدمت میں کھلے بندوں علانیہ یہ وضاحت کئے دے رہا ہے کہ محترم شامی صاحب اور نظامی صاحب بالکل درست فرماتے ہیں کہ محض ایک تقریر کا بہانہ ڈال کر ہمیں جناح اور ان کے دو قومی نظریے کو بگاڑنے کا کوئی حق نہیں ہے جناح کوئی سیکولر ریاست بنانا نہیں چاہتے تھے اگر ایسی بات ہوتی تو وہ انڈیا سے الگ کیوں ہوتے مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کے ساتھ رہتے جنہوں نے سیکولر دستور پر پارٹیشن سے قبل ہی کام شروع کر دیا تھا ۔
جناح اپنے سامنے 14صدیاں قبل قائم ہونے والی اس اسلامی ریاست کا ماڈل رکھتے تھے جس کا پرچار ان دنوں جناح ثالث ہمارا کھلاڑی لیڈر ’’ریاست مدینہ ‘‘ کے نام سے کرتا ہے۔ لیاقت علی نے جناح کے انہی آدرشوں پر قرار داد مقاصد منظور کروائی اور مابعد آنے والےلیڈران نے حسب توفیق اسی ٹونیشن تھیوری کی عظمتوں میں ہولی کے رنگ بھرے اور جاتے جاتے تازہ رنگ ناموس و تقدس صحابہ کے نام پر ہمارے ڈرامے باز بلند پرواز نے بھی ثواب دارین کیلئے بھر دیا ہے اور آج الحمدللہ ہمارا ملک انہی ہستیوں کی وجہ سے اس مقام تک پہنچا ہے پوری دنیا میں جگمگا رہا ہے رہ گئیں اقلیتیں وہ بیچاری پچیس سے کم ہو کر تین پرسنٹ رہ گئی ہیں سو ان کے مسائل آئندہ کیلئے اٹھائے رکھتے ہیں کیونکہ وہ دریش سے یہ لکھنے کاتقاضا کرتے ہیں کہ ہم یہاں خود کو اقلیت کہلوانا نہیں چاہتے کیونکہ اس سے ہمارے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں سو ’’یوم متحدہ قومیت‘‘ منوانا یا منانا چاہتے ہیں ۔
