یہ کالم شاید میں نہ لکھتا مگر کیا کروں پاکستان میرا وطن ہے اور وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اسی ایمان کا تقاضہ ہے کہ میں آپ کے سامنے نفرتوں کا سارا کھیل رکھ دوں۔ نفرتیں ایک دن میں جنم نہیں لیتیں، نفرتوں کی آبیاری کی جاتی ہے، برسوں پرورش کی جاتی ہے۔ نفرتیں خلیج پیدا کرتی ہیں پھر اسی خلیج کو مٹانا مشکل ہو جاتا ہے۔ دلوں میں کدورتیں بھر جائیں تو معاشرہ زہر آلود ہو جاتا ہے۔ ایک آلودہ معاشرے میں محبتوں کی حلاوت کو گھولنا کس قدر مشکل کام ہے۔ اس کا اندازہ بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلہ کرنے والوں کو نہیں کیونکہ ان کی اکثریت عوامی دکھوں سے آگاہ نہیں جب کوئی آگاہ نہ ہو تو وہ مسیحائی خاک کرے گا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی کچھ اشعار یاد آرہے ہیں، شاید فیصلہ کرنے والوں کو کچھ سمجھ آ سکے ۔
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہ دام تھے مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے
ان اشعار پر غور کرنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے مگر افسوس یہاں غور کون کرتا ہے،ذاتی مفادات میں الجھے ہوئے لوگ قوم کے لئے کب سوچتے ہیں، یہاں تو اداروں کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اور کوئی بولتا بھی نہیں، آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ صرف تالیاں بجاتے ہیں، تالیاں بجانے والوں کے بھی چھوٹے چھوٹے مفادات ہوتے ہیں، ان کی تالیاں نظام کو برقرار رکھنے کی گواہی دیتی ہیں، مگر کبھی تالیوں سے بھی کوئی نظام بچ سکا ہے نظام تو وہی بچتا ہے جو لوگوں کی بھلائی کے لیے ہو۔ عوام کے دکھوں کا مداوا ہو۔
ہم اپنی 75 سالہ تاریخ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے کہاں کہاں نفرتوں کے بیج بوئے، کتنی مرتبہ ہمیں نفرت کی فصل کاٹنا پڑی، اس دوران ہمیں آدھا ملک گنوانا پڑا مگر ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ اس کے بعد بھی عوامی طاقت کو کچلنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی شوق میں ایک وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا پھر ایک عوامی لیڈر کا راستہ روکنے کے لئے کبھی غیر جماعتی الیکشن کا ڈھونگ رچایا گیا تو کبھی آئی جے آئی نامی اتحاد بنوایا گیا۔ کسی کی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے لسانی تنظیموں کو جلا بخشی گئی۔ اس سے شہروں کے شہر برباد ہوگئے، فرقہ وارانہ تنظیموں پر کام کیا گیا اس سے قریہ قریہ نفرت پھیل گئی۔ اس سارے کھیل میں لوٹ مار کا کھیل جاری رہا۔ اس ملک کی خاطر قرض لیے جاتے رہے مگر ایک مخصوص ٹولہ قرضے ہڑپ کرتا رہا۔ قرضے معاف ہوتے رہے، افسوس یہاں کے عام لوگوں کو کچھ نہ مل سکا۔ گزشتہ چالیس سالوں کی لوٹ مار نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آج ہماری معیشت ہچکولے کھا رہی ہے۔ اس دوران بھی اقتدار سے چپکا ہوا طبقہ مسلسل جھوٹ بول رہا ہے، یہ طبقہ لوگوں کو تو فریب دے ہی رہا تھا، ہمارے اداروں کو بھی چکر دے رہا ہے افسوس ہمارے ادارے بھی ان کے چکروں کا شکار ہوگئے اور اقتدار پرست ٹولے کی خاطر میدان میں کود پڑے۔
ایک برس ہونے کو ہے، ایک ٹولے کو اکٹھا کر کے ملک پر مسلط کردیا گیا، مسلط کئے گئے گروہ نے اپنے مقدمات تو ختم کروا لئے لیکن لوگوں کی زندگیوں کو تنگدستی کے حوالے کردیا۔ لوگ زندگی سے اکتا گئے تو انہوں نے اپنی امیدوں کا محور و مرکز ایک لیڈر کو بنا لیا۔ اب اقتدار پرست ٹولہ اس لیڈر کے پیچھے پڑ گیا، اس پر سو کے لگ بھگ مقدمات بنا دیے گئے۔ نگرانوں کی پولیس روزانہ کی بنیاد پر اس مقبول ترین لیڈر کے گھر پر چھاپے مارتی ہے، حملے کرتی ہے۔حملوں اور چھاپوں کے باوجود اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مقدمات، یہ چھاپے، یہ حملے کیوں؟ سنا ہے سب کچھ کسی کے کہنے پر ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ سوچئے کہ کیا یہ درست طرز عمل ہے، ہرگز نہیں کیونکہ ملک کسی کی خواہشات پر نہیں چلتے، آرزوؤں کا کھیل ہمیشہ بگاڑ پیدا کرتا ہے۔
چند دنوں سے ملک پر مسلط ٹولے نے ایک نیا ڈھونگ رچایا ہے وہ اپنی مخالف سیاسی جماعت کو کچلنے کی آرزو میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ گولیوں، لاٹھیوں اور آنسو گیس کا استعمال ایک طرف تو دوسری طرف لوگوں کے گھروں پر راتوں کو چھاپے مارے جارہے ہیں، انہیں تنگ کیا جارہا ہے، آٹھ آٹھ دس دس سال کے بچوں کو گرفتار کر کے لے جایا جا رہا ہے، دروازے توڑے جا رہے ہیں، عورتوں کی تذلیل کی جارہی ہے، بزرگوں کی توہین کی جا رہی ہے۔ اسی دوران ہمارے ملکی ادارے خاموش ہیں۔ یہ خاموشی بتارہی ہے کہ یا تو وہ ان معاملات کا حصہ بن چکے ہیں یا پھر آنکھیں بند کرکے غفلت کا ارتکاب کر رہےہیں۔ کیونکہ جن لوگوں پر ظلم ہو رہا ہے، ان کے اور اداروں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ عام پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ادارے اقتدار پر مسلط ٹولے کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ جب نفرتیں بوئی جارہی ہیں تو ہمارے اداروں پر سکوت طاری ہے۔ کسی کو اندازہ ہے کہ جو نفرتیں بوئی جا رہی ہیں، ان کی فصل بڑی بھیانک ہو گی۔
بقول حبیب جالب
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
