صبح تک رات جلے نیند جلے خواب جلے
روشنی اتنی ہوئی شرم سے مہتاب جلے
کنجِ تنہائی میں یادیں مجھے ملنے آئیں
نغمہ و کیف جلے لمس سے مِضراب جلے
ہم بیاباں کو بھی گلزار بناتے جائیں
دشمنِ جان کے سب باغ تھے شاداب ، جلے
جھوٹ کے تخت پہ بیٹھا ہے وہ سچا بن کر
حکم دیتا ہے کہ سچا ہے جو اک باب جلے
میں وہ منظر ہوں اندھیروں میں بھی آتا ہوں نظر
میرے چوگرد مرا سایہء بیتاب جلے