مظہر برلاس

خدا کی بستی میں نور

یہ جمعے کی ایک شام تھی، لاہور کے ایک ہوٹل (جہاں قائداعظم رہا کرتے تھے) کے ہال میں مہمانوں کی آمد جاری تھی، ہم جیسے بروقت پہنچنے والوں کو یہ مرحلہ اکثر پیش آتا ہے کہ ہم تقریب کے آغاز سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے پہنچ جاتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کوئی تقریب بھی وقت پر شروع نہیں ہوتی۔ میں اپنے ایک شاگرد عزیز، شیراز علی خان کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک کونے میں میرے کالج کے زمانے کے دو دوست راز و نیاز کی کیفیت میں باتیں کر رہے تھے۔ خیر! ان کے پاس گیا تو وہ بڑے تپاک سے ملے، ان میں سے ایک ٹی وی کمپیئر نور الحسن تھا جو حکمت کی باتیں بابوں کے نام سے سناتا ہے اور دوسرا پرانا اداکار مگر آج خدا کی بستی میں نور بکھیرنے والا امجد وٹو۔ نور الحسن نے میرے کالموں پر گفتگو شروع کی مگر میں امجد وٹو کو دیکھتا رہا کہ یہ وہی نوجوان ہے جو گورنمنٹ کالج لاہور کے ڈرامیٹک کلب کا متحرک عہدیدار تھا مگر آج وہ خدا کی بستی میں خدا کے بندوں کے کام آ رہا ہے۔ کس طرح بنیرے پر بیٹھے ہوئے شاندار کھانا کھانے کے بعد بیرون ملک بسنے والے دو پاکستانی کس طرح امجد وٹو سے ملے، کس طرح خدمت کا جذبہ ابھرا اور پھر سعودی عرب میں مقیم نارووال کی رہنے والی ایک عورت نے کس طرح خدمت میں بڑا حصہ ڈالا، یہ ساری داستان امجد وٹو نے لمحوں میں سنا دی، وہ قیدی نمبر 804 سے متاثر ہے، ان ہی سے خدمت کا جذبہ لے کر امجد وٹو پاکستان لوٹے ورنہ وہ تو تمام بھائی انگلستان میں جا بسے تھے، وطن کی محبت انہیں کھینچ لائی۔ اس محبت میں خدمت کا جذبہ شامل ہو گیا اور اب خدمت، محبت سے زیادہ عشق کا رتبہ پا چکی ہے چونکہ ابتدا تعلیم سے ہو رہی تھی اس لئے یہ طے پایا کہ اس منصوبے کا نام نور رکھ دیا جائے پھر نور پروجیکٹ میں زندگی کے ایسے اور کئی شعبے آگئے جہاں خدمت درکار تھی، ذرا ان منصوبوں کی تفصیل پڑھ لیجیئے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ بندوں کی خدمت سے عشق کرنے والوں نے کہاں کہاں کمند ڈالی ہے۔ تقریب شروع ہوئی، اللّٰہ کا نام لیا گیا، قومی ترانہ پڑھا گیا پھر نور الحسن نے حکمت کی باتوں کو لفظوں کا لباس دے کر پیش کیا۔ جب امجد وٹو کو سٹیج پر بلایا گیا تو دیر تک تالیاں بجتی رہیں، اپنے خطاب میں نور پروجیکٹ میں شامل منصوبوں پر تفصیلی طور پر بات کرتے ہوئے امجد وٹو یوں مخاطب ہوئے ” میں سب سے پہلے خدا کا شکر ادا کرتا ہوں یہاں میں اپنے تمام سٹاف ممبران کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کیا۔ اس وقت تقریباً 130 لوگوں پر مشتمل سٹاف ممبران اس عظیم اور نیک کام میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 5.2 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والا 60 بیڈز پر مشتمل ایک ہسپتال تعمیر کیا جا رہا ہے، جس میں ہر طرح کے مریضوں کا علاج معالجہ کیا جائے گا۔ اس وقت فنڈ ریزنگ سے 2.2 ملین ڈالر کی رقم اکٹھی کی جا چکی ہے۔ ہم پوری دنیا سے فارن ایکسچینج لا رہے ہیں اور خدا کی بستی میں ضرورت مندوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ڈائیلاسز سینٹر قائم کرنے جا رہے ہیں۔ ہم پر 600 بچے اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کی تمام تر ذمہ داری ہے۔ ان پیاری بچیوں میں سے 25 بچیاں نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں ہاکی کھیلتی ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے چودہ بچیاں انڈر 14 میں پاکستان کی طرف سے کھیلنے جا رہی ہیں۔ یہ بچیاں پاکستان کی نمائندگی کریں گی۔ ہمارے سکول کی بچیوں نے جوڈو کراٹے میں 15 گولڈ میڈل حاصل کیئے، یہ صرف ہمارے لئے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ میں نے اپنی تمام تر جائیداد اس پروجیکٹ کے نام کر دی ہے۔ مجھے ایک دن خیال آیا کہ غریب آدمی کی پہلی ضرورت روٹی ہے، اس ضرورت کے پیش نظر 3 سال پہلے ایک تندور کھولا اور اس کے ساتھ ایک باکس میں 200 روٹیوں کے پیسے ڈالے اور کہا کہ کوئی بھی غریب آدمی یہاں آئے تو اسے روٹی مفت دی جائے۔ خدائے بزرگ و برتر نے اس میں برکت ڈالی اور جب کسی خدمت میں برکت ڈالنے والا برکت ڈال دے تو سلسلہ وسیع ہو جاتا ہے۔ آج 3 سال بعد لاہور شہر میں ہماری طرف سے 780 تندور کام کر رہے ہیں، ان تندوروں سے تقریباً 3 لاکھ سے پانچ لاکھ روٹیاں ہر ماہ لوگوں کا شکم پالتی ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہمارے لوگوں میں خدمت کا جذبہ زندہ ہے میں نے ہر تندور کے پاس رکھے گئے باکس میں صرف ایک دفعہ پیسے ڈالے، دوبارہ پیسے ڈالنے کی ضرورت ہی نہ پڑی، پتہ نہیں خدمت کے کون سے فرشتے یہ کام کر جاتے ہیں۔ میرے دوستو، میرے وطن کے پیارے لوگو! ہم بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دے رہے ہیں، اس سلسلے میں ایمازون، ویب ڈیزائننگ، گرافک ڈیزائننگ سمیت دس کورسز پڑھائے جا رہے ہیں، بلڈنگ تعمیر ہونے کے بعد کورسز کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے گا پھر یہ کورسز دس نہیں تیس ہو جائیں گے۔ میں خدمت کی لگن کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ ہم ہر سال 6000 ہنر مند بچے دنیا کو مہیا کریں گے”۔
پروگرام کے اختتام پر قوالی تھی مگر میں حیرتوں میں گم امجد وٹو پر رشک کر رہا تھا اور مجھے فیض صاحب کے اشعار یاد آرہے تھے

چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں

ضرورت کے مطابق ہم سہارے بانٹ لیتے ہیں

محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیض

اسی دولت کو ہم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں