عطا الحق قاسمی

خالد احمد:چند شرارتی یادیں

آج خالد احمد مرحوم ایک بار پھر یاد آ رہا ہے، خصوصاً لاہور سے لندن تک کے سفر کی یادیں بہت ہانٹ کر رہی ہیں۔ یہ 24 مئی 1989ء کی بات ہے جب ہم تین چار دوست انجمن ترقی اردو برطانیہ کی دعوت پر برطانیہ کیلئے روانہ ہوئے۔ خالد احمد بہت متنوع شخصیت کا مالک تھا۔ اول درجے کا شاعر، بہت پڑھا لکھا،بذلہ سنج اور بعض امور میں بالکل وکھری ٹائپ کا شخص،ان دنوں جہاز کے سفر کے دوران سگریٹ نوشی کی اجازت تھی۔ ہائے کتنے اچھے دن تھے۔ خالد احمد کی زندگی میں میرے اور خالد احمد کی وجہ سے سگریٹ ساز ادارے یہ منافع بخش کاروبار چھوڑنے پر کیسے رضا مند ہو سکتے تھے، خالد اور میں جہاز میں ایک دوسرے کے عنقریب بیٹھے تھے، تاہم چند گھنٹوں کے سفر کے دوران مجھے اپنی کوتاہ دامنی کا شدت سے احساس ہوا، دھواں خالد کے صرف منہ سے خارج نہیں ہو رہا تھا بلکہ لگتا تھا اس کا پورا جسم چمنی بنا ہوا ہے۔ لندن میں تو اعجاز احمد اعجاز کمرے میں دھواں بھرا دیکھ کر فائر بریگیڈ کا نمبر ڈائل کرنے لگا تھا، یہاں جہاز میں بھی ایئرہوسٹس احتیاطاً پانی کا جگ ہاتھ میں لئے اس کے گرد ونواح میں پھرتی رہی، خالد نے لندن سے واپس لاہور تک کے سفر کے دوران ایک ریکارڈ قائم کیا جو زیادہ سے زیادہ وقت باتھ روم میں گزارنے کا تھا، خالد نے لندن میں بھی اتنا وقت لندن میں نہیں گزارا جتنا لندن کے باتھ رومز میں گزارا۔
پی آئی اے کے جمبو جیٹ نے پیرس میں لینڈ کیا تو وہاں پاکستان کے ممتاز ترین بائولر اور عظیم انسان عبدالقادر اپنے مداحوں کے درمیان گھرے نظر آئے۔ مداح ان سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کر رہے تھے، خالد احمد دونوں ہاتھوں سے اپنی گرتی پتلون کو اوپر اٹھاتا تیز تیز قدم اٹھاتا ان کی طرف بڑھا اور عبدالقادر کو مخاطب کرکے کہا اگر میں آپ کو پہچاننے میں غلطی نہیں کر رہا تو آپ عبدالقادر ہیں؟ عبدالقادر نے جواب دیا جی آپ کا خیال صحیح ہے، اس پر خالد بہت خوش ہوا اور کہا جناب میرا تو مسئلہ حل ہوگیا، آپ اکثر پیرس بھی آتے رہتے ہیں، آپ کو تو پتہ ہوگا یہاں باتھ روم کدھر کو ہے، جب ہم لندن سے ہوتے ہواتے برمنگھم پہنچے، وہاں ایک ممتاز پاکستانی اصغر نسیم چوہدری نے ہمارے اعزاز میں شعری نشست رکھی، شعری نشست کے بعد اس محل نما گھر کے سوئمنگ پول پر عشایئے کا اہتمام تھا، جہاں نسیم صاحب نے اپنی غزل سنائی۔ مشاعرے کے بعد خالد ان کی طرف گیا اور کہا آپ نے ابھی جو غزل پڑھی وہ بہت اچھی تھی، اس کے بعد میزبان اور مہمان میں یہ مکالمہ ہوا۔
نسیم: بہت بہت شکریہ۔
خالد: میں نے آپ سے یہ غزل بیس برس قبل حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں سنی تھی۔
نسیم: حلقہ ارباب ذوق کےا جلاس میں؟
خالد: جی جی، حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں۔
نسیم: لیکن میں تو کبھی حلقہ کے اجلاس میں نہیں گیا۔
خالد:آپ بھول رہے ہیں، آپ نے یہ غزل وہاں پڑھی تھی۔
نسیم: نہیں برادر میں نے تو کبھی حلقہ ارباب ذوق کی شکل تک نہیں دیکھی۔
خالد: تو صاحب میں جھوٹ بھول رہا ہوں۔
نسیم: توبہ توبہ جناب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں، میرا مطلب ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
خالد: تو گویا آپ نے یہ غزل حلقے میں نہیں پڑھی؟
نسیم: جی نہیں۔
خالد: مگر میں نے یہ غزل بیس برس قبل حلقے میں سنی تھی، اگر آپ نے نہیں تو پھر کسی اور نے پڑھی ہوگی۔
اس پر میزبان نے سر پیٹ لیا اور کہا جناب یہ میری غزل ہے ، کوئی اور میری غزل کیسے پڑھ سکتا ہے۔
بریڈ فورڈ پہنچے تو وہاں دوستوں کی محفل خوب جمی، مگر تھوڑی ہی دیر بعد یہ محفل ساقی فاروقی اور خالد احمد کے ساتھ مکالمے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ساقی فاروقی بلند پایہ شاعر، خاصے پڑھےلکھے اور جملے باز تھے۔ یہ تینوں خصوصیات اپنے خالد احمد میں بھی موجود تھیں۔ یہاں میں نے ساقی فاروقی کو پہلی دفعہ کسی سے زچ ہوتے دیکھا۔ دراصل خالد احمد اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ایک خاص مخلوق تھا،دیکھنے میں لاابالی پن کا شکار، بظاہر صرف فقرے باز، ہر بات کو فقروں میں اڑا دینے والا مگر یہ بات اس کے قریبی دوست ہی جانتے تھے کہ وہ جب اپنی آئی پر آتا تو بالکل کسی اور روپ میں دکھائی دیتا۔ آج وہ اپنی آئی پر آیا ہوا تھا،ساقی کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل گئی جس نے خالد کو ’’رواں‘‘ کردیا اور اب ساقی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس جن کو واپس بوتل میں کس طرح بند کرے۔ خالد کے کچھ جملے ملاحظہ فرمائیں۔
’’ساقی بھائی، ن ۔م۔ راشد ایک ایسا بینک ہے جہاں آپ اپنی صلاحیتیں ایک عرصے سے جمع کرا رہے ہیں مگر اس بینک سے کوئی چیک کبھی آفر نہیں ہوگا‘‘۔
’’اگر میں کہوں کہ ساقی ایک مائنر شاعر ہے تو برا نہ مانیں، کیونکہ ہر شاعر میجر شاعر نہیں ہوتا، اکثر مائنر ہی ہوتے ہیں مگر دس شاعر مل کر بھی ایک حالیؔ اور ایک داغؔ نہیں بن سکتے‘‘۔
ہم نے کلیشے کا لفظ بہت محدود کر دیا ہے، مثلاً اگر میں ’’سرو دستار‘‘ کہوں تو یہ کلیشے ہے کیونکہ یہ بہت دفعہ استعمال ہو چکا ہے۔ چنانچہ آج کا نیا ادب بھی کلیشے ہے کہ اس میں کہی جانے والی باتیں بار بار ایک ہی پیرائے میں بیان ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ آپ دو سال پہلے تک جو نظم یا غزل کہتے تھے، میرے نزدیک وہ کلیشے کے زمرے میں آتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں کیونکہ آپ نے ایک ایسا ایڈیم ایوالو کرلیا ہے جو نام نہاد کے قریب ہونے کے باوجود اس سے دور ہے۔ ایذرا پائونڈ مشرقیوں کے لئے پسندیدہ شاعر ہے کیونکہ اس نے اپنی شاعری کی بنیاد مشرق ہی سے یعنی چینی شاعری سے اٹھائی ہے چنانچہ وہ ہمیں اپنے بہت قریب لگتا ہے۔ مغرب کے لئے وہ مختلف آواز تھی، اس نے مغرب سے خود کو اپنی ماسٹری سے منوایا۔ ایک پرانی کہاوت ہے ،آئیں سفید بالوں کا احترام کریں خصوصاً اپنے سفید بالوںکا۔ اور میں اس کہاوت پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا‘‘۔
اور اب آخر میں خالد احمد کا ایک شرارتی جملہ۔ خالد پاکستان میں ایک شاعر سے کسی بات پر الجھ پڑا اور کوئی ایسی بات کہہ دی جو اسے نہیں کہنا چاہیے تھی، دوستوں نے کہا ابھی جائو اور اس شاعر سے معذرت کرو۔ خالد اٹھا اور اس شاعر کی طرف گیا اور جاتے ہی اس کے پائوں پکڑ لئے اور بہت لجاجت بھرے انداز میں کہا ’’مجھے معاف کردیں، میں آپ کا کتورا (پلا) ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں