واقعہ کربلا ایک واقعہ نہیں بلکہ ’واردات‘ تھی جو تاریخ عالم کی ایسی افسوسناک دُکھناک اور اذیت ناک واردات تھی جو روز حشر تک عشاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لہو رلاتی رہے گی اور اس بات کی تصدیق کرتی رہے گی کہ محبت کو دوام حاصل ہے اور سچے جذبوں کو کبھی مات نہیں ہوتی۔یہ واردات بہادروں کے سردار حضرت امام حسینؓ ابن علیؓ پر بزدلوں منافقوں اور لٹیروں کے بپھرے ہوئے یزیدی ’ہجوم‘ نے کی ’فوج نے نہیں کی‘کیونکہ فوج کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اس لئے یزید کے بھیجے ہوئے مکار بزدلوں اورظالموں لٹیروں کا ایک بپھرا ہوا ہجوم تھا جس نے کسی اصول کے بغیر گلشن حضرت فاطمہ الزہر ۃ ؓ کے پھولوں کو دھوکے سے بلا کر ان پر یلغار کردی اور
اس واردات کو ہمیشہ’معرکہ‘ لکھا گیا ہے حالانکہ یہ معرکہ نہیں تھاکیونکہ معرکے بھی کچھ ضوابط ہوتے ہیں جس پر لڑنے والا کاربند رہتا ہے اور یزیدی ہجوم کسی اصول اور ضابطے پر کار بند نہیں رہا
امام عالی مقام سید الشہداء حضرت امام حسینؓ سرکار دوعالم نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمتوں اور دنیا پر انکے احسانات کا شمار ہی نہیں جو رحمۃ اللعالمین بن کر کائنات میں جلوہ افروز ہوئے جنہوں نے اپنے اعلی اخلاق اور عظیم کردار سے دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا اور مشرک بھی آپ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین مانتے تھے نبی مہربان حضرت محمد ﷺ سراپا شفقت و محبت تھے آپ خیر البشر ہیں انسانوں میں سب سے بہترین افضل الناس ہیں۔ جو انسانیت کی خیر مانگنے والے تھے اور جو انسانوں کی خیر مانگنے والاہو بھلا کرنے والا ہو اُس ﷺ کے نواسوں پر ایسا ظلم کہ انسانیت شرما کر رہ جائے روا رکھا گیا
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِینَ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! ﷺَّ۔ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو اللہ کریم نے صرف انسانوں نہیں بلکہ جانوروں چرند پرند حشرات الارض اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ کافروں کیلئے بھی رحمت بنایا آپ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتیموں کے سرپر ہاتھ رکھا اور بے آسراوں کو سہارا دیا آپکی محبت و شفقت کے آفتابِ عالم تاب سے ہر کسی نے نور پایا چمک دمک پائی جس کریم اور عظیم ترین ذات پر پتھروں ا ور درختوں نے بھی درود اور سلام بھیجااسکی عظمتوں کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟اللہ نے خود نبی ﷺ پر درود سلام بھیجتاہے اور اپنی مخلوقات کو بھی اسکی ہدائت فرماتاہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ”ہم مکہ میں حضور نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ ﷺ مکہ کے گرد و نواح میں گئے تو راستے میں جو پتھر اور درخت آپ ﷺ کے سامنے آتا تو وہ کہتا”اَلسَّلَام عَلَیک یا رَسولَ اللہِ“ یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔
یہ واقعہ بھی ازبر ہو کہ جب عید کے روز ایک بار
نبی مکرم ﷺ نمازِ عید کے لیے نکلے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ تمام بچے کھیل رہے ہیں مگر ایک بچہ ایک طرف بیٹھا رو رہا ہے اس کا پیرہن بھی دریدہ تھا پیارے آقا کریمﷺ اس بچے سے فرماتے ہیں: ”بیٹا رو کیوں رہا ہے؟ تو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا نہیں
بچے نے کہا مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے شائد وہ نہیں جانتا تھا اسکے مخاطب کون ہیں یا اس نے اپنے پراگندہ حالی کی وجہ سے نہ پہچانا بچے نے بتایا دراصل میرا باپ ایک غزوے میں ہمارے پیارے نبیﷺ کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگیا تھا اور میری ماں نے دوسرا نکاح کر لیا۔ سو وہ میرا مال کھا گئے اور سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال باہر کیا ہے۔ میرے پاس نہ کھانا ہے نہ کپڑے نہ گھر۔ میں نے ان بچوں کو جب کھیلتے اور نئے کپڑے پہنے دیکھا تو میرا غم اور بھی دو چندہوگیا اسی لیے آنکھوں میں آنسو گئے- محسن انسانیت نبیﷺ نے اس بچے کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے میں تیرا باپ۔عائشہؓ تیری ماں۔ فاطمہؓ تیری بہن۔علیؓ تیرے چچا اور حسنؓ و حسینؓ تیرے بھائی ہوں؟ کہنے لگا یارسول اللہﷺ اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا- ہمارے پیارے نبیﷺ اسے گھر لے آئے اور اسے نہلایاخوب صورت کپڑے پہنائے اور کھانا کھلایا- وہ خوش خوش باہر نکلا تو لڑکوں نے پوچھا ابھی تو تو رو رہا تھا اور اب بڑا خوش وخرم ہے کیا بات ہے؟وہ کہنے لگا میں بھوکا تھا اللہ تعالیٰ نے میرے کھانےکا انتظام کردیا میں ننگا تھا اللہ تعالی نے میرے کپڑے کا انتظام کردیا- اور اب میرے باپ رسول اللہﷺ ماں سیدہ عائشہؓ بہن سیدہ فاطمہؓ چچا سیدنا علیؓ اور بھائی حسن ؓوحسینؓ بن چکے ہیں – یہ سن کر لڑکے کہنے لگے کاش آج ہمارے باپ بھی نہ ہوتے اور پھر یہ لڑکا ہمیشہ ہمارے پیارے نبیﷺ کی زیرکفالت رہا- حتی کہ جس دن آپﷺ نے وصال فرمایا تو یہ بچہ رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا افسوس میں آج پھر یتیم اور غریب ہوگیا- اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا-
قارئین کرام! ذراسوچئیے ایسے مہربان گھرانے کو دھوکے سے کوفہ بلایا جانا چاہئے تھا؟ ایسے مشفق گھرانے کو لوٹا جانا چاہئے تھا؟ایسے عظیم ترین گھرانے کے شہزادوں ہر تیر و تلوار کی بارش کی جانی چاہیے تھی؟ ایسے انسانیت کے پاسدار اورعزتوں کی رفعتوں پر فائز گھرانے کی خواتین کو گرفتار ہونا چاہئے تھا؟ ایسے پاکباز گھرانے کے بچوں کوپیاسا تڑپایا جانا چاہئے تھا دنیا کی نفرتوں میں محبتوں کا رس گھولنے والے شہزادوں کو زہر دیا جانا چاہئے تھا ؟ایسا رحمتوں سے مزیّن گھرانہ کہ جو ابرِ باراں کی طرح ہو جنکی رحمتوں سے دنیا سیراب ہوئی ہو ان پر پانی بند کیا جانا چاہئے تھا؟ نہیں ناں؟تو پھر یزیدیت اور یزیدی کردار ہمیشہ کے لیے مردہ باد ہے اور حسینیت اور حسینی کردار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ باد ہے
