ہمارے ملک میں اس نوع کے نعرے تو خوب لگائے جاتے ہیں کہ قانون سب کیلئے ایک ہے یا قانون کی نظر میں سب ایک جیسے ہیں لیکن فی الواقع نہ کبھی ایسے تھا نہ ہے اور نہ ہوگا ۔
ہمارے اٹارنی جنرل نے حال ہی میں ایک قیدی کو دی گئی سہولیات کے متعلق اپنی رپورٹ بڑی عدالت کے چیف جج کو پیش کی ہے جسے پڑھتے ہوئے یہ درویش حیرت زدہ ہے ججز چیمبر میں جمع کروائی گئی لفافہ بند رپورٹ کے مطابق یہ انوکھا لاڈلا قیدی جسے ہم چاہنے والے جناح تھرڈ سمجھتے ہیں اس کی فرمائش پر اسے جیل میں دیسی گھی سے تیار کردہ مٹن اور دیسی مرغے پیش کئے جاتے ہیں کیونکہ یہ دونوں چیزیں اسے کچھ دیگر لوازمات کے ساتھ نوجوانی سے ہی پسند ہیں۔ ناشتے میں بریڈ، آملیٹ ، دہی ، چائے اسی طرح دیگر اوقات میں پھل، سبزیاں، دالیں، چاول اور دیگر ڈشیں ہیں مزید سہولیات میں میٹرس، پنکھے، واٹر کولر، چار تکیے، تولیے، میزکرسی، چار قرآنی نسخے بمع انگلش ترجمہ 25تاریخی کتابیں ، ٹی وی ، روزانہ اخبارات، جیل کے سامنے کوریڈور میں چہل قدمی کی سہولت، محفوظ ہائی ریزرویشن بلاک سیکورٹی کیلئے ملحقہ بلاک خالی رکھا گیا ہے۔ اضافی سیکورٹی پر 54اہلکار تعینات ہیں 5ڈاکٹرز کی بھی سہولت دستیاب ہے جن کی ٹیم قیدی کا روز معائنہ کرتی ہے انگلش کموڈ کا خصوصی واش روم تعمیر کیا گیا ہے ۔بیرک ، واش روم اور کپڑوں کی صفائی کیلئے سٹاف مہیا کیا گیا ہے اہلخانہ اور وکلا سے گھنٹوں ملاقاتوں کا اہتمام ہے ۔
یہ وہ شخص ہے جو دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے لگاتا تھا جو اپنی حکمرانی میں ناجائز اور ناروا طور پر پکڑے گئے سیاسی قیدیوں کو اذیتیں دینے کیلئے طرح طرح کی سکیمیں بنایا کرتا تھا وہ گلا خشک نہیں ہونے دیتا تھا یہ بھاشن دیتے ہوئے کہ قانون سب کیلئے ایک ہے بڑی بڑی مثالیں دیتا تھا کہ میری بیٹی بھی اگر چوری کرے تو اور یہ کہ قومیں تباہ اس وتیرے سے ہوتی ہیں جب آپ شہریوں میں امتیاز برتتے ہیں امیر غریب میں فرق کرتے ہیں آج چیف جج کو بتانا چاہئے کہ کیا یہ تمام تر سہولیات دیگر قیدیوں کو بھی اسی طرح میسر ہیں ؟
ہمارے لوگ قوم کو بیوقوف بنانے کیلئے دعوے کیا کرتے ہیں اور کرتوت کیا ہوتے ہیں ؟ ابھی اس شخص کی پارٹی کے اہم ترین لیڈر پرویز خٹک کے بہت سے بیانات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں جس کے دم سے کے پی میں اس کے اقتدار کا سنگھاسن ایک دہائی سے ہی زیادہ عرصے تک چھایا رہا ہے پرویز خٹک نے اس شخص کے ساتھ زندگی کا ایک حصہ گزارا ہے اور بالآخر وقانون ہ پھٹ پڑا ہے کہ یہ مفرور شخص درحقیقت فرعون تھا اور تاحیات بادشاہ بن کر رہنا چاہتاتھا دوسروں کو تحقیر آمیز لہجے میں دھمکیاں دیتا تھا جس نے جانا ہے جائے مجھے کسی کی فکر یا پرواہ نہیں نیا پاکستان بھی کھوکھلا نعرہ تھا کام زیرو تھا آج بہت سے لوگ پرویز خٹک پر اعتراض کر رہے ہیں کہ یہ سب باتیں قانون انہیں تب کیوں نہ یاد آئیں جب کرکٹر کا طوطی بولتا تھا ان معترضین کو سوچنا چاہئے کہ بیچارہ اتنا نحیف سا انسان کس طرح اتنی بیباکی دکھا سکتا تھا اگر آج ہی اس کی زبان پر سچائیاں آ گئی ہیں جن سے اس متکبر اور تعلی باز کی اصلیت واضح ہوتی ہے تو اسے دیر آیددرست آید کہا جانا چاہئے ۔
ہماری سیاست کا عجیب وتیرہ ہے یہ ہمیشہ مفادات کی مطابقت میں چلتی ہے تعلق واسطے دوستیاں دشمنیاں سب مفادات بدلنے کےساتھ بدلتی رہتی ہیں ہمارے جعلی سیاست دان بالعموم اس بات کے حریص رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کی ملک کے اصل طاقتور طبقے سے بات بن جائے یہاں باچا خاں اور ولی خان جیسے بڑے انسانوں یا سیاست دانوں کی ہمیشہ کمی رہی ہے ۔یہ ولی خان تھے جب صدارتی امیدواربنے تو قانون انہیں بتایا گیا کہ اس حوالے سے فلاں جنرل کو انٹرویو دینا ہو گا بولے میں ایسی صدارت پر لعنت بھیجتا ہوں جس کیلئے اتنی بے اصولی کرنی پڑے ۔
ہماری آج کی صورتحال یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں سب نئے آقا کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ بھی جو بظاہر حقیقی آزادی کے نعرے لگاتے گلا خشک نہیں ہونے دیتے ۔ووٹ کو عزت دو والے بھی اور شہادتوں کا بوجھ اٹھائے غریبوں کے غم میں موٹے تگڑے ہونے والے ہیں ۔
یہاں ایک بیرسٹر نے پارٹی پالیسی کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کھلاڑی کی مفاداتی محبت میں کون کون سی بے اصولیاں نہیں کی ہیں جن پر پارٹی کی طرف سے نوٹسز بھی جاری ہوتے رہے جب باضابطہ اجلاس میں ایک سچے کھرے پارٹی کارکن مولابخش چانڈیو نے اس حوالے سےسوال اٹھایا تو جناح فور بننے کے حریص نے فوری جواب دیا کہ جب ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہے تو آپ کو کیا تکلیف ہے؟ چانڈیو صاحب کو بدلتے حالات و مفادات کی مطابقت میں سیاست کے نئے تیور سمجھنے چاہیں۔ حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں عین ممکن ہے کہ چور ڈاکو کی گردان الاپنے والا اور یہ اٹھتے بیٹھتے اس پر لعنت ڈالنے والے بانہوں میں بانہیں ڈالے یہ گیت گائیں کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔عرض مدعا یہ ہے کہ یہاں وہی سہاگن ہے جو پیا من بھائے ۔آئندہ سیاست کی جو نئی شیرازہ بندی ہو رہی ہے اسے اس ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے ہمارے یہاں اصولوں کی سیاست یا حکمرانی کا کہیں کوئی چلن نہیں ہے سب مفاداتی لڑائیاں ہیں جس کاتوازن طاقتوروں کے ہاتھوں میں ہے اے میرے سادہ لوح پاکستانیو نعرے بازی کےشور میں شعور سے ہاتھ مت دھوئیے جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا۔
