Afzal rehan

جناح ثالث اور مکافاتِ عمل؟

کہا جاتا ہے کہ وقت یا زمانہ سب سے بڑا استاد ہے کسی بھی شخص کو بڑی بڑی یونیورسٹیاں جو کچھ نہیں سکھلا سکتیں وہ وقت یا زمانہ سکھلا دیتا ہے والعصر کی رمز یہی ہے
وقت کی گردش سے ہے چاند تاروں کا نظام
وقت کی ٹھوکر میں ہے کیا حکومت کیا سماج
وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں
وقت ہے پھولوں کی سیج وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج
وقت سے دن اور رات، وقت سے کل اور آج، وقت کا ہر شے پہ راج لیکن کیا کریں لوگ جب طاقت و تکبر میں ہوتے ہیں تو وقت سے سیکھتے نہیں ہیں ورنہ ہم لوگ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ سیکھنے کے لیے اپنا زمانہ ہی نہیں پچھلی پانچ ہزار سالہ تاریخ کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے۔
اس کائنات میں جو بھی اپنی اکڑپھوں کے تحت فرعون، صدام یا ہٹلر بنا، اس نے بشمول اپنے مخالفین انسانی دکھوں میں اضافہ ضرور کیا لیکن بالآخراس کا اپنا انجام بھی خوشگوار نہیں رہا بلکہ بارہا اس کے کرتوتوں کی سزا اس کی فیملی یا ہمدردوں نے بھگتی۔ دنیا میں کتنے بڑے بڑے افلاطون، ارسطو، بدھا، ٹیگور، کارلائل اور رسل جیسے دانا و مدبر آئے مگر جبر پر آمادہ خودستائی و خودنمائی کے مارے متکبرین نے ان سے کوئی سبق نہ سیکھا کوفہ کی ایک دردناک مثال پیش کی جاتی ہے کہ جب حکمران کی حیثیت سے مروان اپنے مخالف کی گردن کاٹنے کا حکم صادر کررہا تھا تو ایک بوڑھا مسکرایا، وجہ معلوم کرنے پر بولا کہ یہاں اسی تخت کے سامنے میں نے کس کس کو مخالفین کی گردنیں کاٹنے کا حکم دیتے اور پھر اسی تلوار سے ان کی اپنی گردنیں کٹتی دیکھی ہیں، یہ تو مکافاتِ عمل ہے آج جو کچھ آپ اپنے مخالفین کے ساتھ کریں گے وہی سب کل کو آپ کے ساتھ بھی روا رکھا جائے گا۔
ابھی تو ہمارے جناح ثالث کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا ابھی تو اس کے مفادات کا رکھوالا انصاف کی بڑی کرسی پر براجماں ہے لہٰذا تیس مار خان جلد ضمانت کرواتے ہوئے چھوٹ جائے گا لیکن اس چند روزہ جیل یاترا نے ہی کیسابوکھلا دیا ہے جو دوسروں کو طعنے دیتے نہیں تھکتا تھا کہ یہ جیلوں سے کیوں ڈرتے ہیں اے یا بی کلاس کی درخواستیں کیوں کرتے ہیں جب قیدی ہیں تو دوسرے سب قیدیوں کی طرح رہیں جو دوسرے جیلوں میں کھاتے ہیں یہ بھی وہی کھائیں نوازشریف میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں ذرا میں واپس آلوں سب سے پہلے تیرا اے سی اترواؤں گا کون سا مخالف ہے جس کو اس شخص نے ایسی گری ہوئی دھمکیاں نہیں دی ہیں گھٹیا ترین الزامات عائد نہیں کیے ہیں کرپشن اور بے ایمانی کے جھوٹے الزامات میں گرفتاریاں کرواتے ہوئے چور چور اور ڈاکو ڈاکو کی گردان نہیں دھرائی ہے اس شخص کی پوریستائیس سالہ یا پچاس سالہ نام نہاد سیاست ہی ایسے گرے ہوئے تھرڈ کلاس الزامات میں ڈوبی رہی ہے وہ بیچارہ رانا ثنا اللہ تو اس کا اور اس کے ہمنواؤں کا خصوصی ہدف رہا ہے خدا کو جان دینے کی قسمیں کھانے والا اس کا وچولا اور خوشامدی جب پندرہ کلو ہیروین کا جعلی کیس بنوارہا تھاساتھ مذہبی تڑکے ٹوٹکے اور ٹچ دیتے ہوئے آیات کا ورد کررہا تھا تب اس کا مردہ ضمیر کس طاقتور کی فیفیابی میں گروی پڑا تھا۔
آج تم چند روز کی جیل یاترا پر ہی بلبلا اٹھے ہو کہ ہائے مجھے اس تنگی سے نکالو یہاں بڑی گرمی ہے مکھیاں مچھر مجھے تنگ کرتے ہیں اور رات کو رانا صاحب خصوصی ہدایات کے ساتھ کئی کیڑوں مکوڑوں کو بھی ادھر روانہ کردیتے ہیں یقیناً اس سے آپ کی نیند خراب ہوتی ہوگی کیونکہ آپ تو پیدائشی رئیس ہیں نازونعمت اور بھرپور عیاشی میں پلے بڑھے خدا بھی آپ کو آپ کے اپنے الفاظ میں سب کچھ دے بیٹھا تھا”۔ جہاں اتنی موج” مستیاں کرتے رہے ہو وہاں چند دن کی یہ مشقت بھی خوش دلی کے ساتھ برداشت کرلو البتہ یہاں کی تنہائی میں اگر شعور کام کررہا ہے جو بیچارہ اتنا کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اس پر اتنا زور ضرور ڈالو کہ میں اپنی خرمستی کے سارے دور میں دوسروں پر ایسے ایسے بیہودہ الزامات کیوں عائد کرتا رہا ہوں؟
اپنے عوام کو اتنا بیوقوف کیوں سمجھتا رہا ہوں؟ یہ کہ جو بھی جھوٹی کہانی گھڑوں گا وہ اس پر ایمان بالغیب لے آئیں گے میں کہوں گا کہ میرے ہاتھ میں ردی کا ٹکڑا اصل میں امریکہ سے آیا ہوا سائفر ہے اور میری حکومت ایک سازش کے تحت امریکا نے گرائی ہے تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے جب میں یوٹرن لیتے ہوئے یہ الزام یکے بعد دیگرے اپنے ہر مخالف کو بدنام کرنے کے لیے لگاتا چلاجاؤں گا تو وہ میرے یوتھیے بن کر آنکھیں بند کیے بے شک بے شک پکارتے چلے جائیں گے۔ آج دیکھ لیا نا اپنے جھوٹوں کا نتیجہ جو تمہاری گرفتاری تمہاری ہدایات کے عین مطابق ریڈ لائن کی گردان الاپتے ہوئے فوجی تنصٰبات پر ٹوٹ پڑے تھے کہ اس طرح کوئی دوسرا طاقتور حافظ صاحب کو کارنر کرتے ہوئے تمہاری ہمنوائی میں اٹھ کھڑے ہوگا آج پوری دنیا کا میڈیا دکھارہا ہے کہ طالبان خان کی گرفتاری پر کہیں سے بھی احتجاج کی کوئی صدا بلند نہیں ہوئی ہے۔ شاباش میرے یوتھیو یعنی کہ کھلاڑی کے فین کلب والے جذباتی نوجوانو! تم نے بھی وقت کے بدلتے تیوروں سے کافی کچھ سیکھ لیا ہے
میرے نوجوانو! یادرکھو کامیاب انسان وہی ہوتا ہے جو وقت اور بدلتے حالات سے سیکھتا ہے اگر زندگی میں کہیں ٹھوکر کھاتا ہے تو اگلی مرتبہ اس کھائی یا چٹان سے دور رہتا ہے آپ کی پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں یا تیلی پہلوان جیسے کمزور ورکروں کو سمجھ آگئی ہے تو آپ لوگ بھی سمجھ جاؤ کہ اب اس شخص کے تلوں میں تیل نہیں رہا اب وہ ایک چلا ہوا کارتوس بن چکا ہے اس پر عروج کا ایک وقت ضرور آیا تھا اپنے غرور و تکبر اور رعونت کے باعث وہ اسے سنبھال نہیں پایا اب جلد یا بدیر اسے اپنے کرموں کا پھل ملنے والا ہے اس جناح تھرڈ نے جتنے بے گناہوں کی تذلیل کی ہے ان کی آہیں اس کا پیچھا کیوں نہیں کریں گی؟ ہمیش کرتی رہیں گی۔
درویش کی یہ تمنا تھی کہ اس شخص کی نااہلی و سزا کی بنیاد کوئی اور جرم نہیں اس کی کرپشن یا مالی لوٹ مار قرار پائے الحمد للہ آج پوری دنیا کے میڈیا میں یہ اچھی طرح گندا ہوگیا ہے عالمی میڈیا میں نمایاں سرخیوں کےساتھ توشہ خانے کی لوٹ مار اور بے ایمانی کی کہانیاں شائع ہوتی ہیں فینزکلب کی اگر پوری تسلی نہیں ہوئی ہے تو وہ ”القادر ٹرسٹ“ میں اربوں کی ھیراپھیری سے واضح ہوجائے گی بس ذرا ستمگر ستمبر کا مہینہ گزرلے۔ اب جناح ثالث کو یہ ازبر ہوجانا چاہیے کہ جو کروگے وہی بھرو گے اور آخری بات یہ کہ مذہب کے جعلی تڑکے لگانے اب بس کردو جس چیز کی ابجد کا بھی تمہیں علم نہیں ہے اس پر یوں بڑی بڑی کیوں چھوڑتے ہو؟

اپنا تبصرہ بھیجیں