سورۃ آل عمران۔ 61
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ۞
🌻ترجمہ🌻
(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔ ۔
🌹تفسیر🌹
اس میں شک نہیں کہ مندرجہ بالا آیت میں مسلمانوں کو مباہلے کی دعوت نہیں دی گئی بلکہ روئے سخن پیغمبر اسلامؐ کی طرف ہے تاہم یہ بات مخالفین کے مقابلہ میں مباہلے کے عمومی حکم سے مانع نہیں ۔ یعنی جب دلائل پیش کرنے کے باوجود دشمن مصر ہوں اور ہٹ دھرمی کا ثبوت دیں تو کامل تقویٰ اور خدا پرستی کے حامل اہل ایمان انہیں مباہلے کی دعوت دے سکتے ہیں ۔
اسلامی منابع میں اس ضمن میں مذکورہ روایات سے بھی اس حکم کی عمومیت ثابت ہوتی ہے ۔ تفسیر نور الثقلین، جلد ۱ صفحہ ۳۵۱ میں امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا: مخالفین تمہاری حق کی باتیں قبول نہ کریں تو انہیں دعوت مباہلہ دو ۔
راوی کہتا ہے : میں نے سوال کیا کہ کیسے مباہلہ کریں ۔ فرمایا:۔ تین دن تک اپنی اخلاقی اصلاح کرو ۔ راوی مزید کہتاہے :۔ ”میرا گمان ہے کہ آپ نے فرمایا روزہ رکھو اور غسل کرو ، جس سے مباہلہ کرنا چاہتے ہو اسے صحرا میں لے جاوٴ۔ پھر اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس کے دائیں ہاتھ میں ڈالو اور اپنی طرف سے ابتداء کرو اور کہو: خداوندا ! تو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے اور پوشیدہ اسرار سے آگاہ ہے اور رحمٰن و رحیم ہے ، میرے مخالف نے اگر حق کا انکار کیا ہے اور باطل کا دعویٰ کیا ہے تو آسمان سے اس پر بلا و مصیبت نازل فرما اور اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کردے : اس دعا کو دہراوٴ اور کہو: یہ شخص اگر حق کا انکار کرتا ہے اور باطل کا دعویدار ہے تو آسمان سے اس پر بلا نازل کر دے اور اسے عذاب میں مبتلا کر دے ۔ اس کے بعد آپ (علیه السلام) نے فرمایا : زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ اس دعا کا نتیجہ آشکار ہو گا خدا کی قسم میں نے ہر گز ایسا کوئی شخص نہیں پایا جو تیار ہو کہ ا س کے ساتھ اس طرح مباہلہ کیا جائے ۔ضمنی طور پر اس آیت سے ان لوگوں کو بھی جواب مل جاتا ہے جو بے سوچے سمجھے اسلام کو مَردوں کا دین قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں عورتیں کسی شمار میں نہیں ہیں ۔ لیکن یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ خاص مواقع پر اسلامی مقاصد کی پیش رفت کے لیے عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ساتھ دشمن سے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑی ہوتی تھیں ۔ بانوئے اسلام جناب فاطمہ زہرا (علیه السلام)، ان کی دختر نیک اختر جناب زینب کبریٰؑ اور ایسی خواتین جو ان کے نقش قدم پر چلیں ان کی زندگی کے درخشان صفحات اس حقیقت پر گواہ ہیں ۔
📚تفسیر نمونہ
——————–
التماس دعا
