فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر
ہم بھی بےبس نہیں ، سہارا نہیں
خود انہی کو پکاریں گے ہم دور سے
راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا
بندگی کا قرینہ بدل جائے گا
سر جھکانے کی فرصت ملے گی کسے
خود ہی آنکھوں سے سجدے ٹپک جائیں گے
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے
اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے
اے مدینے کے زائر! خدا کے لیے
داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا
دل تڑپ جائے گا بات بڑھ جائے گی
میرے محتاط آنسو چھلک جائیں گے
نام ان کا جہاں بھی لیا جائے گا
ذکر اُن کا جہاں بھی کیا جائے گا
نور ہی نور سینوں میں بھر جائے گا
ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے
ان کی چشمِ کرم کو ہے اس کی خبر
کس مسافر کو ہے کتنا شوقِ سفر
ہم کو اقبال جب بھی اجازت ملی
ہم بھی آقا کے دربار تک جائیں گے
پروفیسر اقبال عظیم