ندیم اختر ندیم

بھارتی آبی جارحیت

ہم اگر خود ہی اپنا احتساب کرنے بیٹھیں تو ندامت ہمارا پیچھا نہ چھوڑے لیکن اس کاکیا کیجئے کہ جنکی لغت میں خود احتسابی جیسا کوئی لفظ نہیں،شرمندگی نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہم اپنی دھن میں چلے جارہے ہیں جز اپنے ہمیں کسی اور کی کچھ خبر ہے نہ رکھنا چاہتے ہیں اور اگر کبھی کسی کی فریاد سماعتوں سے ٹکرا بھی گئی تو اسکی خراش کو دور کرنے کے لئے ہم لمحہ بھرکےلئے کانوں میں انگلیاں دے کر گھماتے ہوئے پھر سے ویسے ہی تغافل کی چادر اوڑھ لیتے ہیں
قارئین کرام!میرے ملک کے مسائل ایسے نہ تھے کہ حل نہ ہوتے یا اب بھی ایسی گھمبیرتا نہیں لیکن اب یہ صورتحال زیادہ دور بھی نہیں کہ ہم خدانخواستہ کف افسوس ملتے رہ جائیں کسی پختہ دیوار کو کوئی ناتواں بھی دھکے دیتا رہے تو کبھی نہ کبھی وہ دیوار بھی گرسکتی ہے جیسے کسی پتھر پھر مسلسل پانی کے قطرے گرتے رہیں تو اس پتھر میں بھی چھید کردیتے ہیں، ایسے ہی ہم اپنے ملک کے مسائل سے جتنا نظر چرائیں گے اتنے ہی قصور وار ٹھہرائے جائیں گے، اس لئے ہمیں اپنے ملک کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کےلئے کچھ کرلینا چاہئے ۔
قارئین کرام!اس تفصیل اور تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بھارت کی جانب سے دریائے راوی اور ستلج میں پانی چھوڑاگیا ہے تو حکومتی مشینری حرکت میں آگئی ہے ایک طرف بارشوں کا موسم تو دوسری جانب بھارت کی طرف سے پانی کا چھوڑا جانا مسائل کو اور بھی دوچند کرگیا ہے،بارشیں تو اپنی جگہ لیکن بھارتی آبی جارحیت کا کیا کیجئے؟ بھارت نے تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی کبھی آبی دہشت گردی تو کبھی گولہ بارود سے کام لیا ہے جس سے ملک میں سیلاب آئے ہیں، عذاب آئے ہیں۔ ان سیلابوں میں لوگوں کا کیا کیا بہہ گیا کون جانتا ہے؟ ہر سال ان سیلابوںنے لوگوں کی زندگیاں نگلیں، گھر اجاڑے، کھیت ویران کئے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب ایک بار ایک شخص سیلاب سے پہلے اپنا ہی گھر مسمار کررہا تھا اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا یہ گھر دریا کے قریب ہے اور اس سے پہلے کہ دریا اسے بہا لے جائے میں اسے خود ہی مسمار کرکے اسکی اینٹیں سریا اور گھر کا سامان تو محفوظ کرلوں تاکہ سیلاب کے بعد پھر سے ان اینٹوں سے گھر بنا سکوں یہ تو حالات ہیں ہمارے عوام کے۔ ذرا سوچئے کہ جو شخص اپنا گھر اپنے ہاتھوں سے توڑتا ہے اس گھر کو توڑتے ہوئے جتنی ضربیں اینٹ پتھر پہ پڑتی ہیں اتنی ہی چوٹیں اسکے دل پہ بھی لگتی ہونگی لیکن اقتدارکے نشے میں چور حکمرانوں کو اس سے کیا؟
قارئین محترم!دریائے راوی شکرگڑھ کرتار پور(فیم) سے آگے سرحد کے اس پار مقبوضہ کشمیر سے نکلتے ہوئےپاکستان میں داخل ہو کر دریائے راوی میں جاگرتا ہے شکرگڑھ اور سیالکوٹ سے نکلنے والے نالوں نے تباہیوں کے انمنٹ نقوش چھوڑے ہیں جن میں سالہاسال لوگوں کے بچے جوان بوڑھے مال مویشی بہہ گئے لیکن ہم آج تک سیلاب یا ان نالوں کےتباہ کن نقصانات سے نپٹنے کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب نہ دے سکے، ڈیم پر ڈیم بناتا گیا اور ہم کچھ کر بھی نہیں سکے اور بھارت نے تقریباً ساٹھ سے زائد ڈیم بنا کر اسے اپنی زراعت کے لئے استعمال کیا ،بجلی بنا کر عوام کو سستی بجلی فراہم کی، بڑی فیکٹریاں چلیں ،نئے کارخانے بنے ،بھارتی صنعت نے ترقی پائی جہاں لوگوں کو روزگار ملا ۔یہی وجہ ہے کہ مون سون کے موسم میں بھارت اپنے ڈیم بھرکر شہریوں کو سیلاب کی ہلاکت خیزیوں سے بچا لیتا ہے اور باقی پانی پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے اور یہ لاکھوں کیوسک فٹ پانی پاکستان کے بیشتر شہروں اور دیہات کوڈبو دیتا ہے جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر صرف سیالکوٹ ظفروال شکرگڑھ کی سرحدوں کا ذکر کیجئے تو اس طرف بھارت درجنوں ڈیم بنا چکا ہے اور ہم آج بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔قیام پاکستان کے بعد ہمیں کالاباغ کے نام پر سبر باغ تو دکھائے گئے لیکن ان خوابوں کی تعبیر ہنوز خیال و خواب ہے اگر ہم کسی حکمت یا بصیرت سے کام لیتے تو بھارت جن نالوں میں پیشگی اطلاع دئیے بغیرپانی چھوڑ کر ہمارا جانی و مالی نقصان کرجاتا ہے،ہم نےاس کے راستے میںکہیں کوئی ایسا ڈیم نہیں بنایا کہ جہاں اس پانی کو محفوظ کیا جا سکتا۔ بھارت تو مکاریوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتا پہلے تو اس نے پاکستان کی نہروں کا پانی روک کر مسائل پیدا کئے ،سندھ طاس معاہدے کو بھی خاطر میں نہ لایا تو کبھی پانی روک کر ہمارے دریا خشک کر دیتا ہے اور کبھی آبی جارحیت سے پاکستان کا نقصان کرجاتا ہے،ہمیں چاہئے تھا ہم چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا لیتے جس سے ایک تو توانائی بحران پر قابو پانے میں مدد ملتی دوسرے ہم پانی ذخیرہ کرنے کے قابل ہو جاتے تیسرے سالہاسال کے آج تک کے ہونے والے نقصانات سے بچ جاتے یہاں میرا کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانے کا چنداں مقصد نہیں ہے یہاں سب ہی ایک ہی طرز کی حکمرانی کا تجربہ رکھتے ہیں …. ڈیم بنانا مشکل تصور کیا جاتا ہے لیکن سالانہ اربوں کے نقصان سے بہتر تھا کہ کسی طرح ان مشکلات کا مقابلہ کیا جاتا کوئی حل تلاش کیا جاتاتاکہ آج ہمیں ان پریشانیوں اور مسائل کا سامنا نہ ہوتا جن سے نبرد آزما ہوتے ہم کھربوں کا جانی و مالی نقصان کرکے بیٹھے ہیں اور یہ نقصان مسلسل ہوتا ہم دیکھ رہے ہیں ،اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کی آبی دہشت گردی کو ہمیں دفاعی حیثیت سے دیکھتے ہوئے نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان بھر میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا لینے چاہئیں کہ کسی بڑے ڈیم کے انتظار سے تو یہ بہت بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں