اردو ادب کے شہرہ آفاق ناول دشت سوس (جسے جمیلہ ہاشمی کے قلم نے جاوداں کیا ہے) میں درج ایک مکالمے نے میرے سینے میں ایسی ٹیس پیدا کی اگر میں اسے نقل نہ کرتا تو پھر یہ تاریخی استدلال سے انحراف ہوتا سو
کچھ یوں ہے کہ ناول کے مرکزی کردار منصور اور اس کا بیٹا حسین ہیں جو کہ ایک آتش پرست جس نام محمی ہے اس کی کی اولاد ہیں، اور محمی اپنے بیٹے سے اس کے بیٹے کا نام حسین رکھنے پر استفسار کرتا ہے تو بات نام سے ہوتی ہوئی صحرائے نینوا میں آجاتی ہے اور آتش پرست محمی کہتا ہے کہ “زرتشت کے کسی مقلد کو بھی نقصان پہنچانے کا خیال دل میں نہیں لایا جاسکتا ہے،مگر وہ کیسی قوم تھی جنہوں نے اپنے پیاروں کے خون سے ہاتھ رنگے”
“حسین ابن علی کو بچایا نہ جاسکا۔رسول خدا کے عاشقوں نے ان کے نواسے کو بے آب و گیاہ صحرا میں بیچارگی کی حالت میں گھیر لیا اور قتل کردیا”
آپ بتائیے ان جملوں کو پڑھنے کے بعد رسول خدا کے ماننے والے پر کیا گزرے گی
28 رجب حسین علیہ السلام نے رات کے پچھلے پہر مدینہ چھوڑا تو بھرے مدینے میں کوئی ایک مسلمان نہ تھا جس نے آنحضرت کو مدینے ویران کرنے پر روکا ہو۔۔
آپ علیہ السلام حج بیت اللہ کی ادائیگی میں تھے تو آپ علیہ السلام کو حرمت کعبہ کے عوض اپنا حج عمرے میں تبدیل کرنا پڑا
اہل کوفہ کے خطوط پر یقین کیا تو آپ کے سفیر حضرت مسلم بن عقیل کو دارالامارہ پر بے دردی سے قتل کردیا گیا حالانکہ سفارتی آداب اس عمل کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ کسی پیام بر کو قتل کیا جائے
آپ ابھی راستے میں ہی تھے کہ صحرائے نینوا کی تپتی زمین پر آپ کو اپنے اہل خانہ سمیت گھیر لیا گیا اور پھر یکم محرم الحرام سے دس محرم تک چھ ماہ کے شیر خوار سے لے کر اٹھارہ سالہ نوجوان اور باون سالہ بھائی کی لاش ستاون سالہ ضعیف العمر امام ع کو اٹھانی پڑی ۔۔۔۔یہ داستان جلاوطنی ،حق تلفی، دھوکے اور پھر ظلم ستم گویا جبر کی ہر کہانی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے مگر دکھ یہ ہے کہ کردار تبدیل نہیں ہوئے۔۔ یعنی ایک ہی خاندان کو ہر مرحلے سے گزرنا پڑا ظلم ڈھانے والا تو جلال پادشاہی میں خاندان نبوت کی حرمت اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وعلی وسلم کی محنت جو بھول گیا مگر اکسٹھ ہجری کے مسلمان آل نبی ص کے لیے ڈھال کیوں نہیں بنے۔کیوں فرات کے کنارے بچے پیاس سے بلبلاتے رہے۔ کیوں ضعیف باپ کی آنکھوں کے سامنے اٹھارہ سالہ جوان بیٹے کی سینے پر برچھیاں چلتی رہیں کیوں مقدس سروں کو نیزوں کی انی پر لہرایا جاتا رہا ۔۔۔
نصیرالدین نصیر نے یہاں ایک رائے دی ہے جو کچھ یوں ہے:
” یہ بجا تو ہی ہدف تھا سر مقتل لیکن
دشمنی اصل میں تھی احمد مختار کے ساتھ ”
61ہجری 10 محرم کی ایک خون ریز شام کو امام حسین علیہ السلام بھی قتل کردیے گئے اور ان کا گھوڑا خالی زین لئے خیام میں واپس آیا تو بہنوں نے صدائے گریہ بلند کی جہاں بھائی اپنے امتحان میں سرخرو ہوا وہیں بہن جناب زینب سلام اللہ علیہا کا امتحان شروع ہوا جو شام کے بازاروں سے سر شام اتنی مشکلات لایا کہ۔ناقابل بیاں۔
آج ہم 1445 ہجری کے دہانے پر کھڑے ہیں اور محرم ہمارے درمیان ہے مگر 1400 سال پہلے کی یہ داستان ستم آج بھی سینوں میں تڑپ رکھتی ہے۔ دس دن کوئی چین سے نہیں سوتا
مائیں بیٹوں کو سینے سے نہیں لگاتی۔ حسین کے نام لیوا مسلمان اپنے مرنے والوں کا سوگ نہیں کرتے نیازیں بنا کر سبیلیں لگاکر ہر سال پیاسوں کی یاد میں راستوں سے گزرنے والوں کو روک روک کر پانی پلایا جاتا ہے۔ اور یوں حسین علیہ السلام کے صبر نے قیامت تک انسانیت کو دو گروہوں میں منقسم کردیا ہے۔ ایک فلسفہ ء حسینیت کا قائل گروہ ہے جو ظالم کے سامنے کلمہ حق کہتا ہے ۔ جو بیٹوں کی لاشیں تو اٹھاتا مگر ضمیر کا سودا نہیں کرتا اور دوسرا یزیدیت ہے جو ظلم و ستم اور ناجائز حاکمیت کا استعارہ ء بد ہے۔۔۔۔ حسین علیہ السلام کی یہ عظیم قربانی سراسر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے تھی ۔ آپ نے وہاں شکر کیا جہاں صبر مشکل تھا اور دین خدا کو سرخرو کردیا۔۔۔۔ خدا خوش ہوا اور سرزمین کربلا چیخ اٹھی ۔۔۔۔۔
حقاکہ بنائے لاالہ است حسین علیہ السلام