tariqkhan tareen

بلوچستان سے پاک فوج میں شمولیت کے بڑھتے رجحانات

بلوچستان محب وطن لوگوں کا ایک بڑا گڑھ ہے، مگر نجانے کیسی کیسی من گھڑت کہانیاں اس صوبے کے ساتھ کبھی میڈیا کی شکل میں تو کبھی سیاسی پروپیگنڈوں کی شکل جوڑ دی جاتی ہیں۔ بلوچستان کے باسیوں کی ملک اور افواج پاکستان کے ساتھ محبت کی لازوال قربانیاں موجود ہیں۔ ڈیجٹل میڈیا کے آنے اور اس کی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ہی غیر ملکی اور ریاست مخالفین نے بلوچستان کو ایک سافٹ ہدف بناکر اسکے خلاف اپنی کاروائیاں اور پروپیگنڈے تیز کردیئے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے ایک مرد مجاہد، مجاہد اسلام جنرل حمید گل رح نے ببانگ دھل کہا تھا کہ “Technology without Morality is equal to rascality” یعنی جب تک کہ قوم میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے اخلاقی شعور نا ہو تو یہ وبال جان بن جاتی ہے۔ جنرل حمید گل اپنی سروس کے بعد ملک دشمن عناصر کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔
ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدات کے تحفظ کے لئے لڑتے رہیں، جب جنرل صاحب ان سروس تھے تب بھی اور جب سروس سے ڑیٹائرمنٹ لی تب تو اور بھی زیادہ ہمہ وقت قوم کی رہنمائی کرتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل حمید گل آج بھی ملک کے طول و ارض میں رحلت فرمانے کے باوجود قوم میں نا صرف مشہور ہیں بلکہ اپنی نظریات اور فکریات میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ ان کے مشہور فرمودات جو پتھر پر لکیر ثابت ہوئے بہت سارے ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ 911 بہانہ ہے، افغانستان ٹھکانہ ہے، اور پاکستان نشانہ ہے۔ آج پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بچہ بچہ گواہ ہے کہ جو جنرل صاحب نے کہا تھا آج سب صحیح ثابت ہوا۔ سابقہ ڈی جی ائی ایس ائی نے قوم کو اگاہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ دشمن کے چار ایجنڈے ہے۔ پہلی یہ کہ دشمن آپ کو (پاکستان) کو ڈی ملٹرائز کرنا چاہتا ہے، ڈی نیوکلیئرائز کرنا چاہتا ہے، ڈی اسلامائز کرنا دشمنوں کا تیسرا ہدف ہے، اور چوتھا ہدف دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان کو چائنا سے ڈی لنک کیا جائے۔
قارئین کرام ایک سکتہ طاری ہوتا ہے جب میں جنرل صاحب کی حکمت و بصیرت پر لکھتا ہوں،ملک کے ساتھ یہ صداقت، یہ فہم و فراست کہ جس نے صرف چار الفاظ میں ملک کا موجودہ اور مستقبل کا نقشہ کھینچ ڈالا۔ یہ بہت ہی کٹھن راستہ ہے اس پر چلنا میرے اور آپ کے لئے شائد ممکن نا ہو مگر جو بوجھ یا پھر کردار کے لحاظ سے جنرل صاحب نے وراثت چھوڑ دی ہے اپنے بیٹے عبداللہ گل کے لئے ان کا سوچنا بھی محال لگتا ہے۔ آج عبداللہ حمید گل جو رو پڑے تھے اپنے والد کے وصال پر اور بوجھل دل کے ساتھ انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلونگا نہ صرف بلکہ انکے لگیسیز کو جاری رکھتے ہوئے ہمہ وقت اپنے ملک عوام اور افواج پاکستان کی رہنمائی کرتا رہونگا۔ آج میں دیکھتا ہوں اور حیران رہ کر انگشت بدنداں ہوجاتا ہوں کہ یہ کونسی تربیت ہوگی جنہوں نے عبداللہ گل کو اپنے والد کے ان راستوں پر چلنے کے لئے مجبور کردیا جنہیں عام فہم میں سخت، رکاوٹی، دِقّتی اور صعوبتی راستہ کہا جاتا ہے۔ اس عظیم تربیت کو سمجھنے، سمجھانے اور عملی طور پر چلنے والے عبداللہ حمیدگل کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالٰی انہیں استقامت مستقلہ عطا فرماکر قوم کے لئے زریعہ رہنمائی بن جائے آمین۔
9 مئی کا سانحہ ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے کہ جس نے قوم کے ہر بندے کو لرزا کر رکھ دیا۔ وہی باتیں ہورہی ہے کہ جس پر کہا گیا تھا کہ پاکستان کو ڈی ملٹرائز کیا جائے جس کا مقصد یہ تھا کہ قوم کو اپنے ہی فوج کے خلاف اکسایا جائے یہاں تک کہ فوج اور عوام آمنے سامنے ہوکر ایک دوسرے کو گریبانوں سے پکڑے۔ مگر اللہ تعالٰی کا شکر ہے کہ افواج پاکستان نے انتہائی طور پر ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے چالوں کا ملیا میٹ کر دیا۔ سانحے کے بعد ملک کے طول ارض میں اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے شاندار ریلیاں نکالی گئی۔ اور بلوچستان میں افواج پاکستان سے والہانہ محبت کے اظہار کے لئے جوق در جوق کثیر العوامی ریلیاں نکالی گئی۔ جس میں کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، چمن، قلعہ سیف اللہ، ژوب، لورلائی، شیرانی، موسی خیل، سبی، ڈیرہ بگٹی، صحبت پور، خضدار، لسبیلہ، مستونگ یہاں تک کے تمام شہروں میں بلا امتیاز نسل و رنگ، بلا تفریق سیاست و تعصب افواج پاکستان سے بھر پور عقیدت و احترام اور محبت کے اظہار میں دشمنوں کے لئے مظہر شمشیر و للکار بنے۔
صوبہ بلوچستان میں رہنے والے باسی اپنے وطن پر مر مٹنے والے لوگ ہے۔ یہاں کے لوگوں کے ضمیر و خمیر میں اپنی افواج کے ساتھ محبت لکھ دی گئی ہے۔ اس کی مثال آپ یو لے سکتے ہیں کہ باقی تمام صوبوں میں 9 مئی کے دن ایک سیاسی گروہ کے چند لوگ نکلے اور توڑ پوڑ شروع کی مگر الحمدللہ بلوچستان میں یہ لوگ یا تو نکلے ہی نہیں یاپھر نکلنے والے نا ہونے کے برابر تھے۔ اسی لئے بلوچستان سے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد پاک فوج میں شمولیت کے لئے سامنے ارہی ہے۔ ان شمولیتوں سے ملکی استحکام، امن و امان میں بہتری، اور صوبے کی معاشی بہتری میں مزید اضافہ ہوگا۔ صوبے کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے نوجوانوں نے ہی ملکر مستقبل کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے۔ یہاں باوجود اسکے کہ نوجوان طبقہ بھلے ہی غربت، مہنگائی، بے روزگاری کی چکیوں میں پس رہا ہو مگر ملکی وقار اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ انہیں قبول نہیں۔ صوبے کے باسی تہذیب یافتہ لوگ ہے، اپنی ثقافت، تہذیب و تمدن اور اسلام کے ساتھ ساتھ ملک پر مر مٹنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
بلوچستان کے نوجوانوں میں پاک فوج میں بھرتی کیلئے بڑھتی ہوئی دلچسپی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسطرح یہاں کے نوجوان جوق در جوق فوج میں شامل ہوتے جارہے ہے۔ بلوچ نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے پاکستان کی مسلح افواج میں بڑی تعداد میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایف سی، لیویز، پولیس، اور سی ٹی ڈی میں بھرتیاں دیگر محکموں کی طرح زیادہ تر مقامی علاقوں سے کی جاتی ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے سیکیورٹی فورسز میں اعلیٰ عہدوں تک ترقی پائی ہے۔ ️ بلوچستان کے نوجوان ہمیشہ پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور پاکستان آرمی، لیویز اور فرنٹیئر کور بلوچستان میں شامل ہونے کیلئے ایک عرصے سے دلچسپی رکھے ہوئے ہیں۔️ 8 اگست 2023 کو ایف سی بلوچستان کے ریکروٹس کا 67 واں بیچ ایف سی ٹریننگ سنٹر لورالائی سے پاس آؤٹ ہوا جس میں بلوچستان سے 316 ریکروٹس شامل تھے۔️ 2021 سے اب تک 4804 بلوچ نوجوان اپنے وطن کے تحفظ کے لیے ایف سی بلوچستان میں شامل ہو چکے ہیں۔
اپریل 2023 میں 147ویں PMA لانگ کورس کے پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس میں سے 45 کا تعلق بلوچستان سے تھا۔️ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک دشمن طاقتیں بلوچستان کے عوام اور افواج پاکستان کے درمیان خلا پیدا کرنے کی کوششوں میں ناکام رہی ہیں۔
ملٹری کالج سوئی سے پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) میں انتخاب کا تناسب 51 فیصد ہے، جو بلوچ نوجوانوں کی پاکستان آرمی میں شمولیت کے لیے بڑھتی ہوئی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ ملٹری کالج سوئی سے گریجویشن کرنے والے بلوچستان کے 38 کیڈٹس اس وقت پی ایم اے میں زیر تربیت ہیں اور اب تک ملٹری کالج سوئی کے 149 کیڈٹس پاک فوج میں کمیشن حاصل کر چکے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے پاکستان آرمی میں بھرتی کے لیے عمر کی بالائی حد میں خصوصی چھوٹ دی گئی ہے تاکہ ان کے اندراج کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بلوچستان میں تعلیمی سہولیات کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے فوج میں بھرتی کے لیے تعلیمی میرٹ میں ترمیم کی گئی ہے۔️ اس کے علاوہ مسلح افواج میں بلوچستان کا کوٹہ بھی بڑھایا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ قیادت صوبے سے زیادہ سے زیادہ افسران اور سپاہیوں کو بھرتی کرنے کے لیے پرعزم ہے۔مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بلوچ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت سے علاقے میں بے روزگاری میں کمی کے علاوہ عوام کی زندگیوں میں بھی بہتری آ رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں