الفاظ کی دنیا کے لمحاتی ساتھی، خواتین و حضرات ۔ آج ہم اپنے اغلاط ِ اردو دروس کے سلسلے کا آخری درس آغاز کر رہے ہیں
املا اور تلفظ کی اغلاط :
ہماری نیم خواندہ نسل کی اردو پر عدم توجہی کے باعث نئی نسل کی اردو سے بے اعتنائی ۔۔۔۔۔۔۔ جس کی کئ وجوہات ہیں ۔۔۔۔۔ کے علاوہ فارسی اور عربی الفاظ کے علاوہ مقامی لہجہ اور تلفظ کا فرق بھی املا میں غلطی کی وجہ بنتا ہے ۔ایسی غلطیاں، اعراب ۔۔۔۔۔۔ زیر، زبر ، پیش۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تشدید کا استعمال وغیرہم پر مشتمل ہیں ۔
مثال دیکھیں :
عربی میں ، منتظر ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ظ کے نیچے زیر لگا کر پڑھیں تو اس کے معانی ہیں ۔۔ ۔۔۔ انتظار کرنے والا ( فاعل) ۔۔۔ اگر ظ کے اوپر زبر لگا کر پڑھیں تو اس کے معنی ہیں ۔۔۔۔۔۔ جس کا انتظار کیا رہا ہے (مفعول) ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح اور بھی بہت سے الفاظ ہیں۔
عربی ہی کا ایک لفظ ۔ جو قرآن پاک میں استعمال ہوا ۔۔ اَحسن القصص، اَحسن تقویم ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں یہ اسم صفت ، بطور اسم استعمال کیا جاتا ہے۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑے اہتمام سے بطور فیشن اِحسن۔۔۔ کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ اگر کوئی ٹوکے اور اسے غلط العام کا نام دے کر اس غلطی کو جوں کا توں برقرار رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ قرآن کا لفظ ہے اور قرآن پاک اس کے معانی وضع کرتا ہے ۔ اس لئے ا پر زبر یعنی ۔۔۔۔۔ اَحسن ہی پڑھنا چاہئے۔۔۔۔ عربی کا لفظ ۔ ان ۔شاء ۔۔ اللہ۔۔۔۔ تین الفاظ کا مرکب ہے ۔ اردو میں اس کی املا اکثر ۔۔۔۔۔۔ انشا ء اللہ لکھ کر کی جاتی ہے۔۔۔جبکہ ان شاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح لکھنا درست اور فصیح ہے ۔۔ غَلَط کو ہم غلط یعنی ۔۔۔ غَلط پڑھتے ہیں ۔جو غَلَط ہے ۔
عربی کا لفظ ۔اَخلاق بھی محض اس لئے ۔۔ اِخلاق پڑھا جاتا ہے کہ عام تاثر ہے کہ اہل پنجاب ۔زبر کا استعمال زیادہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کا درست تلفظ ۔۔۔ اَ خلاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔(البتہ صُفحہ کو صَفحہ پڑھتے ہیں ۔رُوز کو روز پڑھتے ہیں تو یہ غلط العام ہے ۔)
السلام علیکم کی مثال پہلے ہی دی جا چکی ہے ۔۔یہ بھی عربی ترکیب ہے ۔اسے اسی طرح لکھنا اور بولنا چاہئے۔
ایک لفظ۔۔۔ نقض امن ۔۔۔ جو سہوِ کاتب کی وجہ سے کبھی نقص امن لکھا گیا ہو گا۔آج بھی اخبارات میں ۔۔۔۔ اندیشہء نقص ِامن لکھا جاتا ہے ۔۔۔( چند ایک اخبارار ، جن میں ۔۔جنگ ۔۔ شامل ہے چند سال پہلے اس نے اس غلطی کی اصلاح کرلی ہے ۔۔۔۔۔
عربی کا فعل امر ہے ۔۔۔۔۔۔ اقراء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے معانی ہیں پڑھو۔۔۔۔۔ یہ اسم نہیں ہے ۔۔ مگر ہمارے زیادہ مسلمان گھرانوں میں تبرک کے طور پر اپنی بچیوں کا نام ۔۔ اقرا ء ۔۔ رکھا جاتا ہے ۔( جنہوں نے رکھا ہوا ہے وہ اس غلطی کے غیرارادی ارتکاب پر اتراتے ہوئے غلطی کی نشاندہی کرنے والے پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تم اپنا علم اپنے پاس رکھو ، اس طرح کی اور بھی تو غلطیاں ہیں۔بعض اوقات وہ اپنی غلطی کے حق میں کسی ایسی غلطی کی لایعنی اور بے جوڑ مثال دیتے ہین کہ قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے جل کر کباب ہو جاتا ہے ۔۔مثلاً ابھی تک پاکستان کے آئین پر عمل نہیں ہوا ، تم ہماری غلطیاں نکال رہے ہو۔۔ ۔ علامہ اقبال ،غالب، میر مجید امجد کے کلام میں بھی غلطیاں ہیں تمہیں ہماری ایک غلطی کیوں کھل رہی ہے ۔ ،،،،،،۔۔ وغیرہ ۔۔بقول اقبال ۔۔۔۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
ایک صاحب کو جب ان کے نام کی نشاندہی کی گئی تو انہوں نے تنگ آکر کہا۔۔۔۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے تم ابھی تک زیر زبر کے چکر میں پھنسے ہوئے ہو۔۔۔ چھوڑو ان خرافات کو۔۔!! دست بستہ عرض کی چاند پر بھیجنا میرا کام نہیں جن کا کام ہے وہ کر رہے ہیں ۔میں ان کو روک نہیں رہا۔۔۔۔ اور نہ ہی چاند پر جانے والوں کا غلط یا درست تلفظ چیک کرکے انہیں چاند کا ٹکٹ ملے گا۔۔ تو دوستو یہ عمل ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے ۔ اپنی چیزوں کو فیشن کے طور پر برا کہنا یا جہالت کے تحت صرف اپنی ہی چیزوں کو ماننا ۔۔۔۔ یہ دونوں طرز عمل ہماری فکری کج روی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ہر غالب تہذیب اپنے اثرات معلوب تہذیب پر ضرور چھوڑتی ہے ۔اس میں کوئی بری بات نہیں مگر ان کو بغیر کسی افادیت کے محض نقل کرلینا اچھی بات بھی نہیں ہے۔
بہرحال ، ہم اپنے موضوع کی طر ف لوٹتے ہیں ۔شاعری میں ماہ اور مَہ دونوں کا استعمال ہوتا ہے۔۔۔۔ مہِ کامل۔۔۔ م پر زبر ہے۔ مگر جب ہم کسی کا نام مہ وَش رکھتے ہیں تواسے بڑے اہتمام سے مِہ وِش ۔۔۔ پکارتے ہیں۔اصل تلفظ ۔۔۔مَہ وَش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔۔ اسی طرح شمشِیر بمعنی تلوار ۔۔۔۔۔۔۔ جب ہم یہ کسی کا نام رکھتے ہیں تو اسے شمشَیر (علی خاں ) دوسرے ش پر زبر استعمال کر کے
پکارتے ہیں ۔
نام رکھنے کے معاملے میں بھی رائج رویہ کام آتا ہے ۔۔۔۔۔ہم رائج الفاظ اور خوب صوت کو پیش نظر رکھتے ہیں۔۔معانی نظر انداز کر جاتے ہیں۔۔۔ مثلا ً اکثر جابر نام رکھا جاتا ہے ۔کہ یہ اسمائے الہٰی میں سے ایک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ اسکے ننانوے میں سے پچانویں فیصد نام رحیمی اور کریمی کے بھی ہیں ۔منتقم ،قہار ،جبار،جابر ہی تو نہیں ۔کیا جس کا نام وہ جابر رکھ رہے ہیں۔اس کا کوئی اورنام بھی اللہ کے دیگر ناموں سے رکھ رہے ہیں ۔۔۔ ؟ نہیں ! اللہ کے بہت سے ناموں سے ایساہی نام ان کی پسندیدہ صوت کی وجہ سے چنتے ہیں ۔اور سند یہ ہوتی ہے کہ یہ اللہ کا نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاؑئی اللہ کا نام لو۔۔۔۔۔۔
اسی طرح ایک نام ۔ شمس القمر بھی رکھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بالکل لایعنی ہے مگر اس کی بھی صوت اچھی ہے ۔۔۔۔ قرآن میں لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ والشمس والقمر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر شمس القمر تو نہیں لکھا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔ قرآن میں تو شیطٰان ،ابی لہب بھی لکھا ہے ۔صم بکم بھی لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( اسی طرح بد بخت خسرو پرویز کے حوالے سے مسلمان گھرانوں میں پرویز کا نام نہیں رکھا جاتا تھا۔ مگر بڑے بڑے علما کا نام بھی پرویز ہے )۔۔ بہرحال اس بارے میں بھی ذرا سی احتیاط لازم ہے خاص طور پر عرب اور عجم میں نام رکھنے کے معاملے میں خاصا امتیاز پایا جاتا ہے ۔اس کو ملحوظ رکھ لیں تو بہتر ہے ( ناموں کی مثالیں اور ان کے لغوی معانی نقل کرکے میں موضوع سے دور نہیں ہٹنا چاہتا)
َََََََََََََََََبصد شُکریہ محمد ظہیر بدر