میں نے دو بار گرفتاری دینے کے لیے کہا لیکن کارکن کھڑے ہوگئے کیونکہ آج عوام میں اپنے محافظوں سے خوف پایا جا رہا ہے کہ وہ مجھے قتل کرا دیں گے۔ عمران خان
ہائیکورٹ کے آرڈر کے مطابق دو آفیسرز آ سکتے تھے تفتیش کے لیے۔ یہ کیسے نفری لے کر میری غیر موجودگی میں میرے گھر پر دھاوا بول سکتے ہیں..
میں اپنے پولیس آفیسرز، اپنے آرمی آفیسرز اور اپنے ججز سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کے گھر میں خاتون اکیلی ہوں اور پولیس گیٹ توڑ کر اندر گھس جائیں تو آپ پر کیا گزرے گی…
ایک وارنٹ جس میں صرف حاضری ضروری تھی اس پر ہزاروں پولیس اہلکاروں کو بھیج کر زمان پارک پر بدترین حملے کیے گئے۔ عمران خان
. جب میں ٹول پلازہ پر پہنچتا ہوں تو مجھے پتا چلتا ہے کہ پولیس نے میرے گھر پر حملہ کر دیا ہے اور اس وقت گھر میں صرف بشری بیگم اور دو تین ملازمین تھے
جو جذبہ میں نے وہاں لوگوں کا دیکھا لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے دوران کہ اگر میں وہاں سے گاڑی تیزی سے نہ نکالتا تو وہاں خون خرابہ ہو جانا تھا
نے انتخابی مہم کا آغاز ایک ریلی سے کرنا چاہا لیکن ریلی والے دن ایک دم دفعہ 144 اور کارکنان کیخلاف آپریشن شروع ہو گیا اور میں نے انتشار سے بچنے کے لیے اس دن ریلی منسوخ کر دی۔ عمران خان
ساری موٹروے کو کینٹینرز لگا کر بند کیا ہوا تھا۔ ایک شخص عدالت میں حاضری لگوانے جا رہا ہے اور انہوں نے ساری موٹروے بند کر دی
کارکنان انکے ظلم کے آگے ڈٹ گئے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ جب یہ مجھے پکڑیں گے تو یہ میرے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو انہوں نے شہباز گل اور اعظم سواتی کیساتھ کیا تھا.
جسے زرداری اپنا بچہ کہتا ہے اس محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ لگایا گیا اور پھر چن کر ان پولیس افسران کو لایا گیا جنکے خلاف ہم نے لکھ کر دیا ہوا ہے۔ عمران خان
لوگوں کو ان کی نیت پر شک تھا وہ اس لیے ان سے لڑے۔ ان کو خوف تھا کہ یہ مجھے اغوا کرنے آ رہے ہیں اور یہ مجھے قتل کر دیں گے
30 سال سے اس ملک کو لوٹنے والا ایک مجرم کے کیسز ختم کرکے اب اسے لیول پلینگ فیلڈ دیا جارہا
یہ مجرم پیشہ لوگ حالات خراب کرکے کسی طرح الیکشن کے بھاگنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں اسلئے ہم نے ریلی ختم کردی اور اگلے دن کا پلان کیا۔ اگلے دن انہوں نے پھر پی ایس ایل کی بات کی تو ہم نے پھر ریلی ختم کردی اور پھر ہم نے تسرے دن کامیاب ریلی نکالی