نعیم مسعود

مقدس رشتے!

اس عالم کی رعنائیاں اور شہنائیاں رشتوں کی وجہ سے ہیں، جانے یہ مقدس کیا ہے اور پاکیزہ کیا، رشتہ تو رشتہ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کچھ لوگ جس طرح آدھا سچ بولتے ہیں جو جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جیسے کچھ لوگ رشتے کو بھی آدھا ہی مانتے ہیں ، اور آدھا رشتہ بھی سنگین صورت حال کا موجب بنتاہے۔ جس طرح آدھا راستہ طے کرنے سے منزل نہیں آجاتی اسی طرح آدھا رشتہ نبھانے سے بھی ذمہ داری کو تقویت نہیں ملتی۔ وضعدارانہ لطف یہ کہ کچھ لوگ دشمنی کو بھی’’رشتہ‘‘ہی سمجھ کے نبھاتے ہیں، بھلے ہی دشمنی کا رشتہ ہو مگر وہ معیار کو بالائے طاق نہیں رکھتے! اور ان وضعداروں کا ایک کنبہ وہ بھی ہے جو انسانی حقوق کو رشتہ اور جمہوریت کو رشتہ داری سمجھتا ہے!
کہنے والے تو گھاس اور گھوڑے کا بھی ایک رشتہ بتاتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہ’’گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا‘‘ یہ وہ طبقہ ہے جو رشتوں میں احساس جگانے کے بجائے خلیج بنانے میں مگن رہتا ہے، اس طبقہ کی نشاندہی اتنی ہی ضروری ہے جتنی احساس کی۔ کچھ دن قبل رشتے کے حوالے سے سالار اعظم نے فرمایا ’’بعض عناصر نے عوام اور فوج کے مقدس رشتے پر وار کرنے کی مذموم کوشش کی جسے تحمل اور سمجھداری سے ناکام بنایا۔‘‘نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات حالات اس قدر کشیدہ ہو جاتے ہیں کہ اگر اس موقع پر سنجیدہ نہ ہوا جائے تو درستی کی جانب جانے والی گاڑی چھوٹ جاتی ہے۔ یقیناً آرمی چیف کا اشارہ 9 مئی کے حالات کی جانب ہوگاجو قومی زندگی میں سیاست، جمہوریت اور ریاست کیلئے سانحہ 9 مئی کی صورت اختیار کر گیا۔ عوام اور فوج کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن جب لیڈر شپ کے تناظر میں دیکھیں تو جب تک سیاستدانوں اور فوج کے درمیان بھی رشتے میں تقدس نہ ہو پھر بھی بیل منڈھے نہیں چڑھتی۔ جس طرح عوام اور فوج کا رشتہ مقدس ہے اسی طرح عوامی نمائندوں اور جرنیلوں میں بھی مقدس ہی رشتہ مقصود ہے کہ گلشن کا کاروبار چلے….بیوروکریسی اور عوام میں بھی مقدس رشتہ بہت ضروری ہے کہ کوئی تو جو اس جانب بھی غور فرمائے۔ مقدس تو دور کی بات ہمیں تو بیوروکریسی اور عوام کے درمیان کوئی رشتہ نظر آیا ہے تو وہ حاکم اور محکوم والا رشتہ ہی دکھائی دیا ہے۔ اور جن اقوام میں انسانیت کے رشتے کی آبیاری نہیں وہاں اکثریت کا آزاد ہونا یا نہ ہونا برابر ہی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہاں سیاست دان کو گالی بنا دیا گیا ہے حالانکہ حلقہ کے عوام اور سیاستدان کے مابین ایک گہرا رشتہ دیکھنے میں آتا ہے۔ چونکہ سیاستدان کو پلٹ کر عوام ہی کے پاس جانا ہوتا ہے چنانچہ یہ مچھلی اور تالاب کا رشتہ ہے، جس کی خرابی جمہوریت اور فکر کی خرابی کو جنم دیتی ہے۔ جمہوریت دو لفظوں میں 1- مشاورت 2- جواب دہی کا نام ہے۔اور جمہوریت کا رشتہ بھی اقوام کے ساتھ اس لئے منفرد اور مقدس ہے کہ یہ جہاں انسانی حقوق کی علمبردار ہے وہاں اس کے برعکس آمریت کے ضابطے بڑے ہی ناپائیدار ہیں۔ یہ کہاں ممکن ہے کوئی ایک بے شمار مسائل، چیلنجز کے حل اور مرہم پٹی کا ادراک رکھ سکے؟
رشتوں کے تناظر میں پرسوں ترسوں کی ایک بزم یاد آگئی جس کا اہتمام لاہور کالج وومن یونیورسٹی نے کیا، یہ یوم دفاع کی پذیرائی تھی، بریگیڈیر (ر) غضنفر لطیف ڈار اور بریگیڈیر (ر) عمران ملک بھی وہاں موجود تھے، اس کے میزبان ڈاکٹر محمد افضل (ڈین) تھے اور صدارت ملتان وومن یونیورسٹی اور متذکرہ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے کی۔ فقیر نے عرض کیا، قومی و ملکی دفاع کیلئے چار رشتوں میں ہم آہنگی ہونا بہت ضروری ہے، اور چاروں دفاعی رشتے (1) سرحدوں کے دفاع (2) تعلیماتی دفاع (3) نظریاتی دفاع اور (4) جمہوری دفاع کے متمنی ہیں۔ فوج، اساتذہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے رشتوں کی مضبوطی ہی ان چار دفاع کی ضمانت ہے بلکہ قومی دفاع کی ضمانت ہے ۔ جب قومی دفاع کی بات ہو تو اس میں جغرافیہ ، تعلیمات و اخلاقیات، نظریہ اور معیشت ہم عصر و ہم نوا ہوتے ہیں۔ اہل نظر خود جائزہ لے لیں کہ عالمی برادری یا گلوبل ویلیج میں ان چاروں کے حوالے سے ہماری رینکنگ کہاں کندہ ہے؟ اس موقع پر بریگیڈیر ڈار کا شکریہ کہ انہوں نے انہی حوالوں کے علوم پر مشتمل اپنی کتاب ” War in the making ” عنایت کی جس میں جنوبی ایشیا کے متعلقہ امریکہ و چائنہ اور پاک بھارت اسٹرٹیجک مقابلہ جات کا احاطہ ہے۔
یہی مقدس رشتے عجیب بھی دکھائی دیتے اور عجیب فیصلوں پر بھی مجبور کر دیتے ہیں۔ ملتان، حلقہ یاراں کی ایک نشست میں میں نے سابق سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر و ایم این اے سید جاوید علی شاہ سے ایک نشست میں تذکرہ کیا کہ 1985 سے 2018 تک مرحوم جعفرلغاری کو اس ٹکٹ پر الیکشن لڑتے دیکھا جس کا اگلا اقتدار ہوتا پس الیکشن 2002 کے بعد میں ان کے ٹکٹ سے حساب لگا لیتا عنان اقتدار کس ہاتھ آئے گی۔ اس پر جاوید علی شاہ نے ایک مخصوص مقدس رشتے اور مجبوری ہی کا ذکر کیا۔ کہنے لگے عوام کو کام چاہئیں، عوامی رشتے میں ترقیاتی و ذاتی کاموں کا اہم عمل دخل ہوتا ہے، اور کام صاحبانِ اقتدار ہی کے ہوتے ہیں۔ جانے ان کا فلسفہ اور وجہ کتنے درست ہیں لیکن بات دل کو لگنے والی ہے مگر یہاں اس رشتے کو بھی تو خراج تحسین پیش کرنا پڑے گا جو پارٹی اور اپنے نظریہ سے جُڑا رہتا ہے نتائج بھلے کچھ بھی ہوں۔ بہرحال جاوید علی شاہ کا منجھے ہوئے سیاستدانوں کی طرح فہمیدگی سے بطورِ افتخار اور شہریار مستحکم رشتہ ہے۔ ایک اور نشست کا تذکرہ کہ جاوید ہاشمی سے میں نے ایک ہی سوال میں دو رشتوں کا پوچھا ایک کا تعلق لیڈری اور دوسرے کا بہادری سے تھا۔ ان کا جواب تھاسیاسی بہادری سے نواز شریف کا عمران خان سے زیادہ پکا رشتہ ہے، اور بلاول بھٹو نے وزیرِ خارجہ کے طور پر لیڈری سے رشتے کو تقویت بخشی ہے!
بہرحال قومی، آئینی، جمہوری اور معاشی ’’مقدس‘‘ رشتوں سے تقدس اور وفا کی آج پہلے سے زیادہ طلب ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں