انبیاء علیہ السلام کے بعد دنیا بھرمیں اسلام پھیلنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ وہ بندگان دین ہیں جنہوں نے اپنی سیرت و کردار ، اور اپنے عمدہ اخلاق و عمل سے علم کی قندیلیں روشن کرکے اسلام کا روشن چہرہ دنیا بھر میں متعارف کروایا، اورطبقات کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر صراط المستقیم پر گامزن کیا ۔ ان ہی عظیم ہستیوں میں برصغیر پاک وہند کے ایک عظیم مبلغ شیخ الاسلام حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ آپ صحابیِ رسول حضرت سیدنا ہبا بن اسود ہاشمی قریشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ باری تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ تبلیغی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا، آپ علم و عرفان اور تقویٰ و اخلاق کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے ۔ آپ نے کفر و شرک میں مبتلا انسانیت کو توحید کا درس دیا، غافل مسلمانوں کو یادالٰہی کا سبق پڑھایا، اور محبت سے محروم دلوں کو اللہ اور اللہ کے رسول خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کی محبت سے معمور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علم روحانیہ اور فیوض باطنیہ میں بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا۔ آپ نے ہزاروں لوگوں کو دولت اسلام عطا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اخلاقی تعلیم و تربیت بھی فرمائی۔ آپ نے ایک منفرد تبلیغی نظام قائم کر کے اشاعت اسلام کے لئے جو خدمت سرانجام دی وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں رقم کی گئی ہے۔
حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ کی تعلیم و تربیت بہت چھوٹی عمر میں شروع ہوگئی تھی ۔ آپ صرف سات سال کی عمر میں قرات کے ساتھ کلام اللہ حفظ کر کے قاری مشہور ہو گئے تھے۔ جب آپ کی عمر بارہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد محترم کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا لیکن آپ کی تعلیم بدستور جاری رہی۔ آپ کی رسا طبیعت اور خداداد ذہن کا یہ عالم تھا کہ ایک بار جو چیز نظر سے گزر جاتی وہ محفوظ ہو جاتی آپ نے تحصیل علم کے شوق سے سیاحت بھی کی والد محترم کی وفات کے بعد آپ نے ملتان سے خراسان کا سفر کیا۔ وہاں پہنچ کر سات سال تک بزرگان دین سے علم حاصل کیا اور اس قدر کمال حاصل کیا کہ درجہ اجتہاد کو پہنچ گئے ۔ مجاہدے ، مشاہدے اور مکاشفے میں بہت زیادہ مشق کی۔ آپ کے اوصاف دل موہ لینے والے اور عادتیں لوگوں کو گرویدہ کر لینے والی تھیں جس کی وجہ سے اہل بخارا آپ کو بہاء الدین فرشتہ کہتے تھے۔ جلد ہی آپ کی شہرت خراسان اور بخارا کے گردونواح سے بھی آگے پہنچ گئی۔بخارا میں آٹھ سال تک تحصیل علم کے بعد آپ حج کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور معمولات حج سے فارغ ہو کر حضور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ پہنچے۔ پانچ سال تک حضور کے روضہ اقدس کی زیارت سے شرف یاب ہوتے رہے اور روضہ اقدس کے مجاور بنے رہے ۔
614ھ میں آپ دوبارہ ملتان تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر چھتیس یا سینتیس سال تھی اہل ملتان کی اس درخواست پر آپ نے تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کر دیا اور ملتان کی حالت علمی ظاہری و باطنی بدل کر رکھ دی۔ ہر طرف مسجدیں تیار ہونے لگیں مدرسے تعمیر ہونے لگے ، لنگر خانے بنائے گئے شہر میں بڑی بڑی اور صاف ستھری عمارتیں تعمیر ہونے لگیں اور ملتان کی رونق بڑھنے لگی۔ آپ یہاں لوگوں میں ترویج علم کے لیے ایک عملی درسگاہ کا قیام عمل میں لائے جو آپ کی خانقاہ سے متصل تھی۔ جس نے ا فراد اور معاشرے کی اصلاح کے لئے مثالی خدمات سر انجام دیں۔ لوگ یہاں آکر ٹھہرتے اور آپ کی صحبت بابرکت سے فیض یاب ہوتے ، اپنے قلوب کی پاکیزگی کا اہتمام کرتے ۔ اس درسگاہ کے دو شعبے تھے ایک شعبے میں علما تربیت حاصل کرتے تھے اور دوسرے میں مبلغین اسلام اسلامی تعلیم اور طور طریقوں سے بذریعہ استاد استفادہ کیا کرتے تھے ۔ ان حضرات کو اس بات کا سبق دیا جاتا تھا کہ وہ جس علاقے یا ملک میں جائیں وہاں کی معاشرت اور زبان سے واقفیت کا ہونا ضروری ہے، حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ بہت مالدار اور سخی تھے اس لئے طالب علموں کے تمام اخراجات آپ خود پورے کرتے ۔مفت تعلیم کے علاوہ خوراک، لباس اور رہائش کا انتظام بھی موجود تھا۔ بزرگان دین کے ملفوظات شاہد ہیں کہ آپ کی درس گاہ سے ہزاروں طالب علم قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ خطاطی، تاریخ نویسی، ظروف سازی ، جلد سازی اور تجارت سمیت مختلف علوم و فنون کے ماہر بنے جنہوں نے ہندوستان کے علاوہ جاوا سماٹرا، انڈونیشیا، فلپائن، خراسان اور چین تک اسلام کی روشنی پھیلائی۔ حضرت شیخ کی تعلیم اور حکم کے مطابق تبلیغی جماعت سوداگروں کے لباس میںبحری جہازوں پر سامان تجارت لاد کر ملتان سے روانہ ہوجاتی اور دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی دکانیں کھولتے اور اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت شروع کردیتے اور جب ان کی ایمانداری، شرافت، عفو و درگزر، تحمل مزاجی سے گاہک اور حلقہ احباب متاثر ہوتے تب وہ اللہ کا پیغام پہنچاتے ، اسلام کی دعوت دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج مشرق بعید کے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں جو کروڑوں مسلمان نظر آتے ہیں وہ ان بزرگان دین اور صوفیا کرام کی سعی اور تبلیغ کا نتیجہ ہے ۔
آپ کے گرد ہر وقت طالبان حق کا ایک مجمع لگا رہتا تھا عقیدت مندوں کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاملتانی کی خانقاہ میں بڑے بڑے اولیاء اللہ نے قیام فرمایا ۔ مثلاً حضرت خواجہ غریب نوازؒ ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت حمید الدین ناگوریؒ، جلال الدین تبریزیؒ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ رشتے میں خالہ زاد بھائی تھے اور آپس میں گہری محبت رکھتے تھے ۔ دونوں حضرات کئی سال تک سفر حضر میں اکٹھے رہے اور دونوں ایک دوسرے کی بہت عزت کیا کرتے تھے ۔ ان کی صحبت میں رنج و ملال کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ فرماتے ہیں ایک مرتبہ مجلس میں زہد و تقویٰ کی گفتگو ہو رہی تھی حضرت برادرم بہاء الدین زکریا اور میں یکجا بیٹھے ہوئے تھے ۔ برادرم بہاء الدین زکریاؒ نے فرمایا کہ زہد تین چیزوں پر موقوف ہے جس میں یہ تینوں باتیں نہیں وہ زاہد کہلانے کا مستحق نہیں اول دنیا کو پہچاننا اور اس سے مایوس نہیں ہونا، دوسرے اولاد کی خدمت کرنا اور اس کے حقوق کی نگہداشت کرنا، تیسرے آخرت کی طلب اور اس کے حصول میں لگا تار کوشاں رہنا اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ رکھنا۔ حضرت بہاء الدین زکریاؒ سے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات منسوب ہیں اور جو مورخین کے مطابق حقیقت پر مبنی ہیں، ان جیسی عظیم ہستیوں نے اپنی پوری عمر عبادت و ریاضت اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں بسر کی، دنیا کی محبت اور کشش ان کے لیے بے معنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملتان اور اہل ملتان ان کے وجود پر نازاں ہیں کہ ان کا وجود تبلیغ و اشاعت اسلام کے ساتھ ساتھ ملتان کی ترقی و مشہوری کا ذریعہ بنا۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کا عرس چند روز بعد ملتان میں شروع ہورہا ہے، جس میں شرکت کے لیے ملک بھر خصوصاً اندرون سندھ سے مریدین و معتقدین کے قافلے پا پیادہ حاضر ہوتے ہیں۔
