حیا اور حجاب

حیااورحجاب الفاظ ذہن میں آتے ہیں توایک شرم وحیاکالبادہ اوڑھے ہوئے،نظریں جھکائے ہوئے باپردہ سی لڑکی کاتصورذہن میں آتاہے۔تعلیماتِ اسلامیہ محض عورت پرہی حیاکولازم نہیں کرتی، شرم وحیاکالباس مرداورعورت دونوں پرہی لازم وملزوم ہے۔اورقرآن جب غضِ بصرکاحکم دیتاہے تومردکوپہلے مخاطب کیاگیاہے۔
فرمانِ خداوندی:۔”اے نبیﷺمومن مردوں سے فرمادیں کہ وہ اپنی نظریں بچاکررکھیں اوروہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں”۔
پھراسی سے متصل حکم عورتوں کودیا گیا۔فرمایا:۔”اے نبیﷺمومنہ عورتوں سے فرمادیں کہ وہ اپنی نظریں بچاکررکھیں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اوراپنی زینت کوظاہرنہ کریں”۔
بدنگاہی بے سکونی کی وجہ کیسے نہ ہو
بدنگاہی جرم ہے توپھرسزاکیسے نہ ہو
حکمِ حجاب:۔
اسلام پردے کاحکم دے کرعورت کوقیدنہیں کرتابلکہ برائی سے بچنے اوراپنی عزت کی حفاظت کے اقدام کرتاہے۔ کہاجاتاہے پردہ کرنے سے کیاہوجاتاہے نیت صاف ہونی چاہیے؟لیکن اس طرح کی باتیں کرنے والے لوگ جان لیں کہ جب حکم حجاب آیاتوان مستورات نے بھی اپنے آپ کوچادروں میں چھپایاجن کے حیااورشرم کی گواہی دینے کیلئے قرآن بول اٹھا۔
ارشادِ ربانی:۔
”اے نبیﷺاپنی ازواج سے اوراپنی بنات سے اور اہلِ ایمان عورتوں سے فرمادیجیے کہ وہ اپنے اوپرچادروں کے پلو لٹکالیاکریں یہ بہترطریقہ ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اورنہ ستائی جائیں”۔
لمحہ ¿ موجودمیں یہ سوال اٹھانے والاہرفردمتوجہ ہو!
” اس حکمِ حجاب پراولین عمل کرنے والی عورتیں وہ نبیﷺازواج آپﷺکی بنات اور آپﷺکی صحابیات تھیں جنھوں نے اس حکم کوسنااورمکمل رات/رات کوتادیرانکے دیے جلتے رہے اورانھوں نے اپنے گھروں میں موجود چھوٹے چھوٹے کپڑوں کوسلائی کرکے اپنی چادریں بنالی تھیں تاکہ صبح فجرکی نمازمیں بے پردہ نہ جاناپڑے۔کہیں حکمِ رب اکبر اورحکمِ نبیﷺ میں کمی کوئی کوتاہی نہ ہوجائے۔
غیرمحرم سے ہمکلام ہونے کاطریقہ:۔
اگرکسی عورت کو غیرمحرم سے بات کرناپڑتی ہے توقرآن یوں رہنمائی کرتاہے۔
”کہ تم دبی ہوئی آوازمیں بات نہ کروکہ جس کے دل میں مرض ہے وہ لالچ کرلے ،اوراپنے گھروں میں ٹک کررہواوردورجاھلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو”۔گھروں میں ٹکنے سے مرادیہ نہیں کہ گھروں میں مقیدہوجا ¶بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ تم بلاوجہ بغیرکسی عذرکے گھرسے نہ نکلو۔
اورجاہلیت کی سی سج دھج سے منع فرمایا۔
جاہلیت کی زینت دوطرح سے ہے۔
1۔ایامِ جاہلیت میں عورتیں گلے میں گلوبندپہنتی تھیں اورکانوں میں بالیاں پہنتی تھیں پھراسکودکھانے کے لیے دوپٹہ سرکے اوپرلےکر
کانوں کے پیچھے سے کمرپرجبکہ سینے پرصرف قمیض ہی ہوتی تھی اس سے منع کیاگیاہے۔اوردوپٹے کے تین فرائض بتائے گئے ہیں۔
سرڈھانپنا،سینہ ڈھانپنا،کمرڈھانپنا
2۔امام رازی ؒفرماتے ہیں کہ
جاہلیت کے وقت میں مرداورعورتوں میں نظامِ مخلوط پرکوئی پابندی نہ تھی مرداورعورتیں اکٹھے بازاروں میں چلاکرتے تھے۔اس نظام مخلوط سے منع فرمایاگیاہے۔لیکن اگرہم جائزہ لیں توہم دیکھتے ہیں ہمارے معاشر ہ میں کوایجوکیشن ہے۔ اورمختلف پہلو ¶ں میں اس لعنتی نظامِ مخلوط کادوردورہ ہے جس میں مرداورعورتیں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔یہ سراسرحکمِ شریعہ کی خلاف ورزی ہے۔
جنت پانے کیلئے عورت کیاکرے:۔
فرمان نبویﷺ:۔
عورت جب نمازِ پنجگانہ اداکرے۔رمضان کے روزے رکھے۔اپنے خاوندکی اطاعت وفرمانبرداری کرے۔اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے۔
ایسی عورت کوحکم ہوگاکہ جنت کے آٹھ دروازوں میں جس سے چاہے داخل ہوجائے۔
(مشکٰوةشریف)
اس حدیث کے مطابق عورت کی لیے جنت پانامشکل نہیں ہے بس وہ چارافعال کواحسن طریقے سے انجام دے۔
جن عورتوں کوجنت کی خوشبونہیں ملے گی:۔
آنحضرتﷺنے فرمایا:۔
عورتیں لباس پہن کربھی برہنہ ہوتی ہیں۔خودمائل ہوتی ہیں دوسروں کواپنے اوپرمائل کرتی ہیںاوران کے سربختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ایسی عورتیں جنت میں داخل نہ ہوسکیں گی اورنہ ہی خوشبو جنت کوپاسکیں گی۔ حالانکہ جنتیوں کواسکی خوشبو500میل کی مصافت سے آنے لگے گی۔لباس پہن کربرہنہ ہونےکی محدثین نے دووجوہات بیان کی ہیں۔
1۔لباس بہت باریک ہوگا۔
کہ دیکھنے والے کو اس میں سے ہرعضونظرآئے گا۔
2۔لباس تنگ ہی اتناہوگاکہ دیکھنے والابندہ سمجھ جائے گاکہ یہ عورت کافلاں عضو یہ فلاں عضوہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے معاشر ے میں باریک لباس بھی موجودہے جس کااستعمال عام ہے۔
اوربختی اونٹوں کی کوہانوں سے سر کوتشبیہ دینے سے مراد سروں کے جوڑے ہیں جوبہت اونچی اوربڑے بڑے باریک دوپٹہ لےکرنمایاں ہوتے ہیں۔
اسلام میں عورت کے مقامات:۔
اسلام نے عورت کومختلف حیثیتوں سے نوازاہے اورمختلف طریقے سے درجات عطاکیے ہیں۔
بیٹی۔ماں باپ کی نورِ نظر
بہن۔بھائیوں کی غیرت
بیوی۔شوہرکی عزت
ماں۔یہ رتبہ دےکراللہ اپنی جنت بھی عورت کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں۔
لیکن یادرہے کہ یہی رشتے ہیں جوعورت کی عزت کے محافظ ہیں۔اوراگرعورت بے پردہ وبدچلن ہواوریہ رشتے اس کی محافظت کاحق ادانہ کریں گے تویہ ان سب سے جنت کاداخلہ روک لے گی۔بے حجابی کے علاوہ جوچیزیں مردکوکشش کرتی ہیں۔
1۔عورت کی چال۔
اگرعورت زمین پردھیمے طریقے سے چلنے کے بجائے جابجاپا ¶ں مارتے ہوئے چلے توبھی مرد متوجہ ہوتے ہیں اوراسکے چال چلن کاجائزہ لیتے ہیں۔اوراگرکوئی چھنکنے والی چیزیعنی چوڑیاں اورگھنگرولگے ہوں تواس قسم کی چھنکارسے بھی مردمائل ہوتے ہیں۔
2۔خوشبوکااستعمال:۔
عورت کوبالکل ہی خوشبوکےاستعمال سے منع نہیں کیاگیابلکہ گھرسے نکلتے وقت عورت اتنی تیزخوشبواستعمال نہیں کرسکتی کہ بازارمیں موجودتمام مردحضرات اسکی خوشبومحسوس کریں۔
نبیﷺنے فرمایا:۔
”جس وقت کوئی عورت خوشبولگاکربازارمیں آجاتی ہے اوراسکی خوشبومردحضرات محسوس کررہے ہیں توجتنے لوگ اس کے بدن سے آنے والی خوشبوکومحسوس کرتے ہیں اللہ سب کےساتھ اس عورت کازنالکھ دیتے ہیں ”۔
(ترمذی کتاب الترجل)
ایک مرتبہ سیدناابوہریرہؓ بازارسے گزررہے تھے کہ انھوں نے سامنے سے ایک عورت کوآتے دیکھاجب یہ عورت ان کے پاس سے گزری توانھوں نے اس کے بدن سے آنے والی خوشبوکومحسوس کیا۔
فرمایابی بی ٹھہرجا۔پوچھابی بی کہاں جارہی ہو؟کہنے لگی میں مسجدجارہی ہوں۔پوچھانمازپڑھنے جارہی ہو؟بولی جی ہاں نماز پڑھنے جارہی ہوں۔فرمایابی بی سن لو !
مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ِقدرت میں میری جان ہے میں نے اپنے کانوں سے نبیﷺکوفرماتے ہوئے سناہے۔
”جوعورت خوشبولگاکرمسجدمیں چلی جائے وہ جب تک واپس پلٹ کرغسلِ جنابت نہ کرے اس وقت تک میراپروردگاراس کی کوئی عبادت قبول ہی نہیں کرتا”۔ (ابوداو ¾دشریف)
حیاجن کی حیات کاحصہ تھا:۔
قرآن ایسے لوگوں کے تذکرے بڑ ی شان سے بیان کرتاہے جنھوں نے اپنی زندگیاں حیا کے د ائر ہ میں رہ کرگزاریں۔
ان لوگوں کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔سیدنایوسف ؑ2۔سیدہ مریم ؑ3۔سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ وطاہرہ(جن پرتہمت لگی توگواہی خودذاتِ باری تعالٰی نے دی)
سیدناموسٰی ؑاورسیدناشعیب ؑکی نورِ نظر۔اورسیدناعثمان ابن عفان حدیث میں ذکرہے کہ فرشتے بھی ان سے حیاکیاکرتے تھے
قصہ سیدناموسٰی:۔
مدین کے کنویں پرموجودبھوک کے احساس میں اللہ کوپکاررہے ہیں۔فرمایاموسٰی پریشان نہ ہو۔اتنے میں شعیبؑ کی بیٹی آئی۔
اب یہ لڑکی اپنے گھرسے چلی تواللہ نے قرآن میں تذکرہ کیاکہ وہ کیسے چلی۔(فَجَآئَت ±ہُ اِح ±دٰھُمَاتَم ±شِی ± عَلَی اس ±تِح ±یَا۔)(القصص)
ترجمہ۔پس ان دونوں میں سے ایک چلی اورحیاکےساتھ چلی۔
وہ حضرت موسٰی ؑکے پاس آئی اوربولی کہ میرے باباآپ کو بلارہے ہیں۔حضرت موسٰی ؑنے چلناشروع کردیا۔لڑکی آگے اورموسٰیؑ پیچھے تھے کہ ہواآئی اوراس لڑکی کی پنڈلی ننگی ہوگئی ۔ حضرت موسٰی ؑنے فرمایا کہ بی بی تم پیچھے ہوجا ¶میں تمھارے آگے چلناچاہتاہوں اوراپنی جھولی میں پتھررکھ لوجدھرکومڑناہوپتھرپھینک دینامیں مڑجا ¶ں گا۔ (ابنِ کثیر)
یہ تقاضاہے حیاکاموسٰی ؑنبی کااور شعیب ؑ کی نورِ نظرکاجس کاچلنابھی قرآن نے بتایا۔یہی توروشن آبگینے تھے جنھوں نے اس قدرحیاکےساتھ زندگیاں بسرکیں کہ تاریخ اپنے اوراق میں ان کے تذکیر کرنانہیں بھولتی۔
اب ہم سیدناموسٰی ؑ کے طرزِ عمل کودیکھتے ہوئے اپنے معاشرے کاجائزہ لیں توہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان مکمل رات میں برہنہ مجرے دیکھتے ہیں اورزبان سے عاشقِ رسول ہیں۔
جن لوگوں پرجنت حرام ہے:۔
آپ ﷺنے فرمایا:۔تین طرح کے لوگ ہیں جنہیں کبھی جنت نہ مل سکے گی۔
1۔دیوث2۔عورتوں کاحلیہ اپنانے والامرد3۔شراب پرہمیشگی کرنےوالا۔
دیوث کون ہے؟جومرداپنے اہل والوں میں بے حیائی دیکھے اورخاموش رہے اوروہ جواپنے اہل والوں کوبے پردہ بازاروں لیے پھرے۔
قصہ دیوث کی اہلیہ چادرمیں لپٹ گئی ۔
نواب صدیق الحسن صاحب،محدث، اپنے دورمیں حدیث کے مشہورومعروف معلم تھے۔ایک دفعہ اپنے شاگردوں کوحدیث کی تعلیم دیتے ہوئے فرمانے لگے ۔”جنت کے درواز ہ پرلکھاہواہے۔ لاَیَد ±خُلُ ال ±جَنَّةَ دَیُو ±ثَ۔ ©: ©دیوث جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا”
توطلباءنے پوچھااستادِ محترم دیوث کسے کہتے ہیں؟فرمانے لگے صرف بتادوں یادکھابھی دوں؟کہنے لگے اگردونوں کام ہوجائیں توزیادہ بہترہے۔فرمایاشام کوفلاں وقت فلاں پارک میں آجانا۔مقررہ وقت پر وہ شاگرد آپ کے پاس آئے اورپوچھنے لگے کہ استادِ محترم آپ نے دیوث دکھانے کاکہاتھا۔اپنی بیوی کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے۔یہ دیکھومیری بیوی میرے ساتھ ببے پردہ میں اسے لے کر بازارمیں پھررہاہوں۔میں ہی وہ دیوث ہوں۔اورفرمانے لگے کہ میں نماز روزوں کے علاوہ نفلی نمازیں اور روزوں کابھی مہتمم ہوں صدقات بھی کرتاہوں۔لیکن جنت میں نہیںجاسکتا۔بیوی پران باتوں کااتنااثرہواکہ اپنے دورمیں معروف شخصیت، احکامِ شریعہ پرعمل پیراہونے والامیراخاوندصرف میری وجہ سے جہنم میں جائے گا؟گھرگئی اور اپنے خاوندسے کہنے لگی یہ چادراپنے ہاتھوں سے مجھ پراوڑھادیں اورکبھی اتری ہوئی نہ پائیں گے۔اس لیے دورِ حاضر کے مردحضرات کوچاہیے کہ وہ اپنے اہل والوں کے حیاوحجاب کاخیال رکھیں۔کہاں کھوچکی ہیں ،امت کی بہنیں اورمائیں، اوڑھ لوسب اپنے اوپر،حیاکی ردائیں، رب عطاکر ے گاتم کو، اپنی رضائیں ۔
جوچیزظرف سے باہرہو:۔
۱۔حدوداسلامیہ میں حیاعورت کاظرف حجاب لباس ہے اگرکوئی عورت اس کوپامال کردے تواس کی مثال اس دودھ کی سی ہے جوابل کرباہرنکل آئے اورگھروالی اسے سنک میں نچوڑدے۔اسکی قدرنہیں ہے۔حالانکہ ہے تووہ بھی دودھ لیکن ظرف سے باہرآگیا۔اسی طرح جوعورت ظرف سے باہرآجائے اسکی بھی معاشرہ قدرنہیں کرتا۔
۲۔اوراق جب تک محفوظ جلدکے اندربندہوں تب ہی ان کوکتاب کہاجاتاہے۔
اسی طرح عورت جب تک حیاکے لباد ے میں ہو تواسکی قدرکی جاتی۔ہمارے معاشرے کے لوگ گرمی کاروناروتے ہیں اور اپنی عورتوں کوپردے سے روکتے ہیں۔لیکن جب وہی عورت مرجاتی ہے تو اسی گرمی میں اس کے نرم ونازک بدن پراتناسخت اور موٹالباس کیوں ڈالتے ہیں۔میں تودکھ بھری اس داستان کوسمیٹتے ہوئے آخرمیں یہی کہناچاہوں گی۔
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں وگرنہ
آنچل بھی اسی تارسے بنتا ہے کفن بھی

حمادیہ صفدر

اپنا تبصرہ بھیجیں