habib jalib

جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی

جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی

اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو
جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی

گھرمیں بھی کہاں چین سے سوئے تھے کبھی ہم
جو رات ہے زنداں میں وہی رات وہاں تھی

یکساں ہیں مری جان قفس اور نشیمن
انسان کی توقیر یہاں ہے نہ وہاں تھی

شاہوں سے جو کچھ ربط نہ قائم ہوا اپنا
عادت کا بھی کچھ جبر تھا کچھ اپنی زباں تھی

صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
مشہور گلستاں میں بہت میری فغاں تھی

تو ایک حقیقت ہے مری جاں مری ہم دم
جو تھی مری غزلوں میں وہ اک وہم و گماں تھی

محسوس کیا میں نے ترے غم سے غمِ دہر
ورنہ مرے اشعار میں یہ بات کہاں تھی….

اپنا تبصرہ بھیجیں