قُقنُس ایک دیو مالائی پرندہ ہے، جس کی تخلیق میںرنگوں کا اِژدِہام ہے،جس کی نغمہ گری لاثانی ہے، کہتے ہیں کہ اُس کی چونچ میں 360 سوراخ ہیں اورہر سوراخ سے ایک مختلف نغمہ برآمد ہوتا ہے، اس اساطیری پرندے کی عمر ہزار سال کے لگ بھگ ہوا کرتی ہے۔ مرگِ ققنس کا قصہ بھی بہت عجیب ہے، ققنس لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے ، ان پر بیٹھ کر راگ دیپک گاتا ہے، لکڑیاں آگ پکڑ لیتی ہیں، پھر ققنس اپنے پروں سے اس آگ کو خوب بھڑکاتا ہے اور آخر اس الائو میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔اس کے بعد آسمان سے بارش برسنے لگتی ہے اور کچھ ہی دیر میں ققنس عدم سے پھر وجود میں ڈھل جاتا ہے، اپنی راکھ سے نکلتا ہے اور گنگناتا ہوا محوِ پرواز ہو جاتا ہے۔
کیا پاکستان کی فضائے سیاست کا ققنس میاں محمد نواز شریف ہے، جو اسی پرندے کی طرح راگ دیپک الاپتا ہے، چوبِ خشک بھڑکاتا ہے اوراس آگ میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے، ابھی چشمِ ہمدرد گریہ آغازکیا چاہتی ہے، ابھی عدو کا قہقہہ بلند بھی نہیں ہونے پاتا کہ نواز شریف اپنی راکھ سے پھر نکلتا ہے اور افلاکِ سیاست کی جانب پرواز کرنے لگتا ہے۔ یہ منظر ہم نے ایک بار نہیں بار بار دیکھا ہے۔ ہمارے ہر بڑے سیاست دان کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر مکتبِ سیاست میں داخل ہونے والے نواز شریف نے 1993 میں ’ڈکٹیشن‘ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ یار لوگوں نے کہا اب نواز شریف کی سیاست ختم ہو جائے گی، اور پھر الیکشن ہوا تو نواز شریف کا مناسب ’بندوبست‘ کر لیا گیا، مگر 1997 میں نواز شریف دوبارہ محوِ پرواز ہوا اور سیدھا بامِ اقتدار پر جا بیٹھا۔1999 میںنواز شریف کی نہ صرف حکومت ختم کی گئی بلکہ کمانڈو مشرف نے انہیں ’اغوا‘ بھی کر لیا، یعنی مارشل لا لگا اور ایک منتخب وزیر اعظم غائب کر دیا گیا، نواز شریف کے احوال کسی کو معلوم نہ تھے، وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں، کوئی نہیں جانتا تھا۔نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تو دوستوں نے کہا کہ اب نواز شریف کبھی میدانِ سیاست میں نہیں دوڑ سکے گا، کہانی ختم۔ مگر پکچر ابھی باقی تھی۔ نواز شریف جلا وطن کر دیا گیا تو احباب نے خدائی لہجوں میں اعلان کیا کہ اب نواز شریف کبھی واپس نہیں آ سکے گا۔لیکن نواز شریف ایک دفعہ پھر اپنی راکھ سے اُڑا اور محوِ پرواز ہو گیا۔ 2013 میں تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعدا بھی نواز شریف نے وزیرِ اعظم ہائوس میں سامان بھی ٹھیک طرح سے نہیں کھولا تھا کہ اس کے خلاف دھرنے شروع کروا دیے گئے، کچھ ہی دن گزرے کہ نواز شریف نے پھر دیپک راگ کا الاپ شروع کر دیا، یعنی مشرف کا احتساب ہو گا، راحیل شریف صاحب کو ایکسٹینشن نہیں ملے گی، سی پیک بنے گا اور یمن میں پاکستانی فوج نہیں بھیجی جائے گی۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے، آگ بھڑک اٹھی، ققنس جل کر راکھ ہو گیا، پھر وہی جیل پھر وہی جلا وطنی، پھر وہی دشت پھر وہی خارِ مغیلاں۔ یاروں نے پھر قطعیت سے اعلان کیا کہ آخرِ کار نواز شریف کی کہانی تمام ہو گئی، ختم شد۔یار لوگوں کو پھر شرمندگی اٹھانا پڑی ، نواز شریف نے ملک سے باہر بیٹھ کر اپنے سیاسی مخالف کی حکومت ختم کروائی، اپنی پسند سے اہم ترین تعیناتی کروائی، اپنی پسند سے الیکشن کی تاریخ لی، اور ایک بار پھر ققنس اُڑنے کے لیے پر پھڑپھڑا رہا ہے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن سے مفر ممکن نہیں۔
اور دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ گوالمنڈی کے ققنس کو آج کچھ ایسی فضا کا سامنا ہے جو اس کے لیے یکسر اجنبی ہے۔ اکثر سیاسی مورخین متفق ہیں کہ پچھلے تیس سال میں نواز شریف کو آزادانہ انتخابات میں شکست دینا لگ بھگ ناممکن رہا ہے، کبھی اسے نااہل کرنا پڑتا ہے، کبھی جیل کبھی جلا وطنی اور کبھی آر ٹی ایس بٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن کم از کم تیس سال میں آج پہلی مرتبہ نواز شریف کو انوکھے سیاسی حالات کا سامنا ہے۔اس بار ققنس اپنے برادرِ خُرد کے سینے میں فروزاں آتشِ شوقِ شیروانی میں جل کر راکھ ہوا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اگلی حکومت بنانے کی سب سے سنجیدہ امیدوار مسلم لیگ ن سمجھی جا رہی ہے، مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ روشن ہے کہ پارٹی نے قبولیت کو مقبولیت پر ترجیح دی ہے۔ جیسے کل ایک نجی محفل میں مسلم لیگ نون کے ایک سابق وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ ’پچھلے پچیس سال مقبول ترین رہنے والے نواز شریف کوصرف تین سال کے لیے حکومت ملی، ایسی مقبولیت کا کیا کرنا ہے جس سے عوام کی خدمت نہ کی جا سکے۔‘ یہ بحث عملیت پسندوں اور ہم جیسے مثالیہ پرستوں میں بڑے دن سے جاری ہے، اور غالباً ابھی کئی دن جاری رہے گی۔
لمحہء موجود کا منظر کچھ یوں ہے کہ ققنس جل کر راکھ ہو چکا ہے، تیز ہوا چل رہی ہے، ققنس کی راکھ فضا میںچار سُو اُڑ رہی ہے، جو آنکھ یہ منظر پہلی بار دیکھ رہی ہے اُسے یقین ہے کہ یہ پرندہ وقت کے جھکڑ کی نذر ہو چکا ہے، چشمِ کہنہ مگر بہ ضد ہے کہ ’’ابھی دم سادھ کردیکھتے جائو‘‘۔اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لینا ققنس کے لیے کوئی معجزہ نہیں، معمول کی بات ہے۔ بہرحال، اکیس اکتوبر کو نواز شریف اپنی طویل سیاسی زندگی کا سب سے کڑا امتحان دینے بہ ظاہر ’خالی ہاتھ‘ پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔یہ ڈراما دکھائے گا کیا سِین…. پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
